رسائی کے لنکس

فیفا ورلڈ کپ 2022: وہ حریف جو دہائیوں سے سامنا کرنے کے منتظر تھے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

فٹ بال ورلڈ کپ کے 22ویں ایڈیشن کا آغاز اتوار سے ہو رہا ہے جس میں دنیا کی 32 بہترین ٹیمیں ٹرافی کے لیے مد مقابل ہوں گی۔ ایونٹ کا فائنل آئندہ ماہ 18 دسمبر کو کھیلا جائے گا جس میں ایونٹ کی دو ٹاپ ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔

میگا ایونٹ کے ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ بنانے کے لیے البتہ پہلے آٹھ گروپس میں بٹی ہوئی ٹیموں کو اپنے اپنے گروپ میں موجود دیگر ٹیموں سے میچ کھیلنے بھی ہوں گے اور اس میں کامیابی بھی حاصل کرنی ہوگی۔

اس بار ورلڈ کپ کے پہلے راؤنڈ میں کئی ایسے مقابلوں کا امکان ہے جو تاریخ دہرا بھی سکتے ہیں اور نئی تاریخ بنا بھی سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ احتیاط دفاعی چیمپئن فرانس کو ڈنمارک کے مقابلے میں کرنی پڑے گی کیوں کہ آخری بار جب ایشیائی میدان پر یہ دونوں ٹیمیں ٹکرائیں تھی تو فرینچ ٹیم کا سفر پہلے راؤنڈ میں ختم ہوگیا تھا۔

یہی نہیں اگر ایک طرف امریکہ اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والا مقابلہ 1950 کے اپ سیٹ میچ کی یاد تازہ کرسکتا ہے تو دوسری جانب اسپین اور جرمنی کی ٹیمیں پہلی مرتبہ 2010 کے اس سیمی فائنل کے بعد آمنے سامنے آئیں گے جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تھی۔

ایسے ہی چند میچوں پر نظرڈالتے ہیں جو میگا ایونٹ کے پہلے راؤنڈ کو میگا بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے اور جن میں یا تو تاریخ دہرائی جائے گی یا پھر نئی تاریخ بنے گی۔

گروپ بی میں امریکہ اور انگلینڈ کا میچ اتنا اہم کیوں؟

اس بار سابق چیمپئن انگلینڈ اور اگلے ورلڈ کپ کی میزبان امریکہ کی ٹیموں کا ٹکراؤ گروپ بی میں 25 نومبر کو ہوگا۔

فٹ بال کے میدان میں امریکہ کا پلڑا بھاری رہا ہے جس نے اب تک دو میچوں میں سے ایک انگلینڈ کو ہرایا اور ایک میچ ڈرا کیا۔

ڈرا ہونے والا میچ تو 2010 کے ورلڈ کپ میں کھیلا گیا تھا لیکن اسے اب بھی ساٹھ سال قبل کھیلے جانے والے میچ کو جیتنے والے امریکی اور ہارنے والے انگلینڈ کے باشندے آج تک نہیں بھولے۔

یہ تاریخی میچ 1950 میں برازیل میں اس وقت کھیلا گیا جب انگلش ٹیم کو کنگز آف فٹ بال کہا جاتا تھا جب کہ امریکی ٹیم نان پروفیشنل کھلاڑیوں پر مشتمل تھی, جسے وارم اپ میچ میں اٹلی نے0-9 سے زیر کیا تھا۔

انگلش ٹیم کے مینیجر اس میچ میں کامیابی کے لیے اتنے پرامید تھے کہ انہوں نے اپنے اہم کھلاڑیوں کو آرام دیا تاکہ وہ دیگر میچوں میں پرفارم کرسکیں اور جب پہلے 12 منٹ میں انگلینڈ کو گول کرنے کے چھ مواقع ملے تو مینیجر کے فیصلے کو سب نے درست مان لیا لیکن میچ کے 37ویں منٹ میں سب کچھ اس وقت بدل گیا جب والٹر باحر نامی اسکول ٹیچر کے پاس پر ڈش واشر جو گیجنز نے میچ کا پہلا اور واحد گول اسکور کرکے سب کو حیران کردیا۔

اس کے بعد انگلش کھلاڑیوں نے امریکی گول پر تابڑ توڑ حملے تو کیے لیکن گول نہ اسکور کرسکے اور امریکی ٹیم نے شاندار دفاع کی وجہ سے ایک اپ سیٹ کامیابی اپنے نام کی جس کا بدلہ لینے کے لیے انگلش ٹیم آج بھی بےقرار ہے۔

میکسیکو کو سابق ورلڈ چیمپین ارجنٹائن پر برتری کیسے حاصل ہے؟

ویسے تو ارجنٹینا کے مقابلے میں میکسیکو کی فٹ بال ٹیم نسبتاً کمزور بھی ہے اور اس کے پاس لیونل میسی کے لیول کے کھلاڑی بھی نہیں۔ تاہم انہیں ارجنٹائن پر ایک معاملے میں برتری حاصل ہے اور وہ ہے زیادہ بار ورلڈ کپ میں شرکت کرنے پر۔

برازیل کے بعد میکسیکو کی ٹیم نے سب سے زیادہ ورلڈ کپ مقابلوں کے لیے کوالیفائی کیا اور ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی ان کے عوام ٹیم سے اچھی کارکردگی کے لیے پرامید ہیں۔

اس میگا ایونٹ میں میکسیکو کی ٹیم 26 نومبر کو پڑوسی ملک ارجنٹائن کے مدمقابل ہوگی اور ان کی کوشش ہوگی کہ ورلڈ کپ میں ارجنٹینا کو پہلی بار شکست دی جائے۔

اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان 1930 کے گروپ اسٹیج میں جب کہ 2006 اور 2010 کے میگا ایونٹ میں کوارٹر فائنل میں مقابلہ ہوا تھا۔ جسے ارجنٹینا نے جیت لیا تھا۔

گزشتہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں میکسیکو نے جرمنی کو اپ سیٹ شکست دی تھی اور ان کے مداح اس بار بھی ٹیم سے کچھ ایسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

دفاعی چیمپئن فرانس کو ڈنمارک کے خلاف محتاط کیوں رہنا ہوگا؟

عام حالات میں دفاعی چیمپئن فرانس کو ڈنمارک جیسی ٹیم کے خلاف 26 نومبر کو ہونے والے میچ سے زیاہ پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن آخری بار جب فرانس نے ایشیائی سرزمین پر بحیثیت دفاعی چیمپئن ڈنمارک کا سامنا کیا تھا تو اسے ناکامی ہوئی تھی۔

مقام تھا جنوبی کوریا کا شہر انچن، جہاں 1998 کا ورلڈ کپ جیتنے والی فرانس کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ پہلے میچ میں انہیں سینیگال کے ہاتھوں شکست ہو چکی تھی لیکن کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ دفاعی چیمپئن فرانس دوسری شکست کے بعد ایونٹ سے باہر ہوجائے گا۔

معروف اسٹرائیکر زیڈان کی موجودگی میں فرانس کی ٹیم ڈنمارک کا کھل کر مقابلہ نہ کرسکی اور دو صفر سے نہ صرف میچ ہاری بلکہ ایک ڈرا اور دو شکستوں کے بعد ایونٹ ہی سے باہر ہوگئی اور اسی لیے فرینچ کھلاڑیوں کو ڈنمارک کا سامنا کرتے ہوئے محتاط رہنا ہوگا۔

اسپین اور جرمنی دونوں کے لیے گروپ ای کا اہم میچ

گزشتہ 40 برسوں میں اسپین اور جرمنی کی ٹیمیں ورلڈ کپ میں تین مرتبہ مد مقابل آئی ہیں۔ 1982 میں میچ جرمنی (اس وقت مغربی جرمنی) نے دو ایک سے جیتا تھا جب کہ 1994 میں ہونے والا میچ ڈرا ہوا تھا لیکن تیسرے میچ میں اسپین کی کامیابی اس لیے سب کو زیادہ یاد ہے کیوں کہ یہ ایونٹ کا سیمی فائنل تھا۔

سن 2010 میں ڈربن میں کھیلے گئے اس سیمی فائنل میں اسپین نے بہتر کھیل پیش کیا۔

پہلا ہاف تو برابری پر ختم ہوا تھا لیکن دوسرے ہاف میں اسپین کے فارورڈ لائن چھائی رہی اور 73ویں منٹ میں کارلز پویول کے فیصلہ کن گول نے اسپین کو پہلی مرتبہ ایونٹ کے فائنل میں پہنچا دیا۔

اس شکست کے بعد جرمنی کو تیسری پوزیشن کے لیے یوراگوئے سے نبرد آزما ہونا پڑا تھا۔ جس میں اس نے کامیابی بھی حاصل کی لیکن تب سے لے کر اب تک جرمنی اور اسپین کی ٹیمیں میگا ایونٹ میں آمنے سامنے نہیں آئیں۔27 نومبر کو ہونے والے میچ میں پتا چل جائے گا کہ اس بار کون سی ٹیم بہتر تیاری کے ساتھ ایونٹ میں شرکت کے لیے آئی ہے۔

دو دہائیوں بعد امریکہ اور ایران آمنے سامنے

امریکہ اور ایران کے درمیان بین الاقوامی تعلقات میں کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات تعطل کا شکار ہیں۔

اسی لیے جب 29 نومبر کو دونوں ممالک کی ٹیمیں ورلڈ کپ میں آمنے سامنے ہوں گی تو یہ میچ دیکھنے سے تعلق رکھے گا کیونکہ اس میں دونوں ممالک کی ٹیمیں نہ صرف ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے چارج ہوں گی بلکہ ان کے حامی بھی اس کے انتظار میں بے چین ہوں گے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب ایران اور امریکہ کی ٹیمیں فٹ بال کے میدان میں ورلڈ کپ کے دوران آمنے سامنے آئیں۔

'مدر آف آل گیمز' کے نام سے مشہور ان کا مقابلہ 1998 میں کھیلا گیا تھا جس میں فرینچ زمین پر ایران نے امریکہ کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے زیرکیا تھا۔

اس میچ میں کک آف سے پہلے ایران میں پیدا ہونے والے فیفا افسر مہرداد مسعودی کو کئی معاملات میں دونوں ٹیموں کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنا پڑا۔

قوانین کے مطابق میچ سے قبل ٹیم بی کو ٹیم اے سے ہاتھ ملانے جانا ہوتا ہے لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا حکم تھا کہ ایرانی کھلاڑی ٹیم بی ہونے کے باوجود ایسا نہیں کریں گے۔

مہرداد مسعودی نے یہاں اہم کردار ادا کرتے ہوئے امریکی ٹیم کو قائل کیا کہ وہ ایرانی کھلاڑیوں سے جاکر ہاتھ ملائیں، جس کے بعد ایرانی ٹیم نے اپنے حریفوں کو سفید گلاب دے کر امن کا پیغام دیا۔

جس وقت دونوں ٹیموں کے کھلاڑی فیلڈ پر بہترین کھیل پیش کررہے تھے۔ فرینچ حکام متعدد خطرات سے نمٹنے کے لیے تیارتھے جس میں گراؤنڈ میں داخل ہونے سے لے کر دہشت گردی کا خدشہ قابلِ ذکر تھا۔

ہاف ٹائم سے پانچ منٹ قبل ایران کی جانب سے حمید استیلی نے پہلا گول اسکور کیا تو 84ویں منٹ میں اس برتری کو مہدی مہدوی کیا نے دگنا کردیا۔

امریکی کھلاڑی برائن مک برائیڈ کے گول نے اس برتری کو کم کرنے میں تو مدد کی لیکن ایران کو ورلڈ کپ فٹ بال میں اپنا پہلا میچ جیتنے سے نہیں روک سکے۔

اس فتح کے بعد ایران میں ایسا جشن منایا گیا جیسے ان کی ٹیم نے ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔

اس فتح کے باوجود ایران کی ٹیم اگلے مرحلے میں نہ پہنچ سکی لیکن امریکی ٹیم کو کو ناک آؤٹ مرحلے سے باہر کرکے ان کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔

وہ مقابلہ جس کے لیے ویلز کے فٹ بال شائقین نے چھ دہائیوں انتظار کیا

امریکہ اور ایران کے دہائیوں پرانے کشیدہ تعلقات کی انگلینڈ اور ویلز کے صدیوں پرانے معاملات کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔

انگلینڈ کے بادشاہوں نے متعدد مرتبہ ویلز پر حملے کیے جسے ویلز کے عوام آج تک نہیں بھولے۔

اپنی تاریخ، اپنی زبان اوراپنی فٹ بال پر ویلش عوام کو ناز ہے اور اسی لیے جب 29 نومبر کو انگلینڈ اور ویلز کی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی تو یہ میچ اس مرتبہ کا 'مدر آف آل گیمز' ہوسکتا ہے۔

ایک طرف ہوگی 1966 کی چیمپئن انگلینڈ کی ٹیم تو دوسری جانب 64 سال بعد ورلڈ کپ میں جگہ بنانے والی ویلش ٹیم۔

امکان یہی ہے کہ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کریں گی اور اسٹیڈیم کا ماحول بھی 1998 میں ہونے والے امریکہ اور ایران کے میچ سے مختلف نہیں ہوگا۔

میگا ایونٹ کا پہلا راؤنڈ دو دسمبر تک جاری رہے گا جس کے بعد پری کوارٹر فائنل مرحلے میں ہر گروپ سے دو دو ٹیمیں کوالی فائی کریں گی۔

اگر مضبوط ٹیمیں نسبتاً کمزور حریفوں کو شکست دیتی رہیں اور کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا تو کوئی شک نہیں کہ ارجنٹائن کی ٹیم روایتی حریف انگلینڈ سے اور برازیل کا مقابلہ یوراگوئے سے ہو سکتا، جس نے انہیں 1950 میں عالمی چیمپئن بننے سے روکا تھا۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG