کراچی کے سیاسی، غیر سیاسی اور تجارتی حلقوں میں جس موضوع پر ان دنوں سب سے زیادہ بحث چھڑی ہوئی ہے وہ 18تاریخ کو ہونے والا پاکستان پیپلز پارٹی کا جلسہ ہے۔
شہر کی کوئی شاہراہ ایسی نہیں جہاں اس جلسے کے بڑے بڑے ہورڈنگ بورڈز نصب نہ ہوں۔ پارٹی کی جانب سے بھرپور تیاریاں کی جارہی ہیں، سیکورٹی اداروں نے منگل سے ہی سخت حفاظتی منصوبوں پر عمل درآمدکا عندیہ دے دیا ہے، جبکہ تاجر برادری فکرمند ہے کہ کاروبار کی بندش سے انہیں کروڑوں روپے کانقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
جلسہ ہفتے کے روز باغ جناح، مزار قائد پر ہوگا۔ لیکن، سیکورٹی کے پیش نظر منگل کی رات 12 بجے سے نمائش چورنگی سے سی بریز تک کی تمام دکانیں اور کاروباری مراکز سیل کئے جانے کا امکان ہے، جبکہ گرومندر اور اس کی اطرافی مارکیٹس کو جمعرات کو سیل کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔
جلسے سے 3 روز قبل ہی دکانیں و کاروبار بند کرائے جانے پر دکانداروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں بھی اسی جگہ جلسے ہوچکے ہیں تب تو ایسا نہیں ہوا پھر اب کیوں ہورہا ہے۔
رہنماوٴں کا جوش و خروش
سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی جانب سے مزدور رہنماوٴں اور صوبے بھر کی لیبر یونینز کو جلسے میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہونے کا ’دعوت نامہ‘ دیا جاچکا ہے، جبکہ پی پی رہنماوٴں مثلاً سید خورشیداحمد شاہ، شرجیل میمن، سینیٹر سعید غنی، قادر پٹیل، وقار مہدی، راشد ربانی، نجمی عالم، خواجہ محمد اعوان، حبیب الدین جنیدی، اسلم سموں، لیاقت مگسی، اعجاز بلوچ، جاوید چودھری سمیت شاید ہی کوئی رہنما ایسا ہو جو اس جلسے کے لئے بڑھ چڑھ کر آگے نہ آرہا ہو۔
جلسے کے اعلان سے اب تک پارٹی مسلسل عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ اعلیٰ پارٹی قیادت کی ہدایت پر تمام صوبائی وزراٴ، ارکان اسمبلی، سینیٹرز اور پارٹی رہنما اپنے اپنے متعلقہ ضلع میں کارنرز میٹنگز منعقد کرتے اور لوگوں پر جلسے میں شرکت کے لئے زور دیتے رہے ہیں۔
بلاول جلسے سے سیاسی شناخت مضبوط کرنے کے خواہشمند
سیاسی حلقوں، خاص کر اندرون پارٹی، اس جلسے کو بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ کچھ سیاسی رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ اس جلسے سے بلاول اپنی سیاسی شناخت مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے، تاکہ مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں ان کا کردار وضع ہوسکے۔
لیکن، بعض مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق ’پاکستان پیپلز پارٹی اپنی سابق رہنما بینظیر بھٹو کے انتقال کے بعد مسلسل ایک بڑے سیاسی چہرے اور نام کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ پی پی 2008ء کے انتخابات جیتنے میں اس لئے کامیاب ہوگئی تھی کہ اسے ہمدردی کے ووٹ ملے تھے ورنہ بھٹو خاندان کا اصل سیاسی وارث یا اس سے براہ راست تعلق رکھنے والا کوئی بڑا رہنما اس کے پاس موجود نہیں تھا۔۔۔اور کم و بیش اب بھی یہی صورتحال ہے۔ ‘
کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ ’اگرچہ آصف علی زرداری پانچ سال تک ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ لیکن، انہیں اپنی مضبوط اور منفرد سیاسی شناخت بنانے میں اب بھی بہت سا وقت لگے گا۔ حتیٰ کہ مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں جگہ اور شناخت بنانا بلاول بھٹو کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ ایک ان کی کم عمری اور دوسرے ناتجربہ کاری ہے۔‘
بلاول پنجاب میں پیپلز پارٹی کی آخری امید
سندھ سے نظر ہٹا کر پنجاب میں پی پی کی موجودہ حیثیت پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بلاول پیپلز پارٹی کی آخری امید ہیں۔ پی پی رہنماٴ اور سابق وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان تو یہاں تک کہہ چکی ہیں کہ ’بلاول کو کراچی کے بجائے پنجاب کو زیادہ وقت دینا ہوگا، کیوں کہ حالیہ برسوں میں پی پی کی جانب سے پنجاب کو نظرانداز کئے جانے کی شکایات بڑھ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کا کارکن پی پی سے ناراض ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’بلاول بھٹو ناراض کارکنوں سے معافی مانگ چکے ہیں۔ لیکن، اب انہیں پنجاب کو زیادہ وقت بھی دینا پڑے گا۔ وہ کراچی کی سیاست میں زیادہ سرگرم اور پنجاب کے سیاسی اسٹرکچر سے ناواقف ہیں۔ لیکن، اگر انہیں مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں اپنے لئے جگہ اور شناخت بنانا ہے تو پنجاب کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا پڑے گا۔‘
وہ اپنی بات کی مزید وضاحت میں یہ بھی کہتی ہیں کہ ’کوئی بھی پارٹی پنجاب میں مضبوط موجودگی نہ ہونے پر بڑی یا مستحکم نہیں رہ سکتی، کیونکہ سیاسی اعتبار سے یہ صوبہ ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔‘ بقول اُن کے، ’پنجاب رجحان ساز صوبہ ہے۔‘
عام شہری فکرمند ہے
تمام تیاریوں اور جوش و خروش کے باوجود کراچی کا عام آدمی فکر مند نظر آتا ہے۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے نے اس حوالے سے مختلف لوگوں سے جلسے سے متعلق ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو بہت سے نئے پہلو سامنے آئے۔ بیشتر شہریوں کا کہنا تھا کہ جس قدر سخت سیکورٹی پلان مرتب کئے جانے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں، اس سے ایک جانب انجانا سا خوف طاری ہے تو ایک طرح کی فکرمندی بھی لاحق ہوگئی ہے۔
گارڈن ویسٹ کے رہائشی سنیل کا کہنا ہے ’کراچی کی دو شاہراہیں ہی سب سے اہم ہیں۔ بندر روڈ یعنی ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل۔ ہفتے کو یہ دونوں شاہراہیں بند ہوں گی، کیوں کہ سیکورٹی پلان کے حوالے سے جو خبریں ہیں ان کے مطابق شاہراہ فیصل سے نمائش تک، سی بریز پلازہ سے نمائش، گرومندر سے نمائش اور پیپلز چورنگی سے جلسہ گاہ تک تمام ذیلی راستوں کو 500 سے زائد کنیٹرز لگا کر بند کیا جائے گا۔ ایسے میں جو لوگ ٹاور، اولڈ ایریا، آئی آئی چندریگر روڈ یا کیماڑی میں جاب یا کاروبار کرتے ہیں وہ بھلا کس روٹ سے کیوں کر وہاں پہنچ سکیں گے؟۔۔اس دن تو معاملات اور ٹریفک دونوں بہت گھمبیر مسئلہ ہوں گے‘۔
کچھ نجی اداروں کے ملازمین اور کاروباری مراکز کے نوکری پیشہ افراد نے بتایا کہ: ’ہفتے کو انہیں جبری چھٹی کرنا پڑ سکتی ہے کیوں کہ مین شاہراوٴں پر کنٹینر لگے ہوں گے۔ نہ تو موٹر سائیکل پر اور نہ ہی پیدل چلنے کے لئے جگہ ملے گی۔ ایسے میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو تو اور زیادہ مشکلات درپیش ہوں گی۔ دنیا بھر میں جلسے جلوس الیکشن کے دنوں میں ہوتے ہیں۔ لیکن، ہمارے یہاں پتہ نہیں یہ بے موسم جلسے جلوس کی وباٴ کہاں سے عام ہوگئی۔‘