دنیا میں تقریباً ایک ارب انسان ہیڈ فونز کے استعمال اور بہت بلند آواز والے موسیقی کے پروگرامز میں شرکت کے باعث سماعت سے محروم ہوسکتے ہیں۔
بدھ کو عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی سربراہی میں ہونےو الے ایک تحقیقی جائزے میں کہا گیا ہے کہ ہیڈ فونز کے استعمال اور بلند آواز میں موسیقی سننے سے متعلق سب سے زیادہ نوجوانوں کو محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی اس رپورٹ میں حکومتی سطح پر ایسی ڈیوائسز بنانے والی کمپنیز کو سماعت کے تحفظ کے لیے اقدامات کا پابند بنانے کے لیے زور دیا گیا ہے۔
بی ایم جے گلوبل ہیلتھ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تجزیاتی رپورٹ میں انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی اور روسی زبانوں میں شائع ہونے والے مختلف 33 تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ رپورٹس گزشتہ دو دہائیوں میں مرتب کی گئی ہیں جن میں 12 سے 34 برس عمر کے 19000 افراد شریک ہوئے تھے۔
اس جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 24 فی صد نوجوان اسمارٹ فونز وغیرہ کے ساتھ ہیڈ فونز کا استعمال کرنے کی ایسی عادات رکھتے ہیں جو ان کی قوتِ سماعت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
اس کے علاوہ 48 فی صد نوجوان تفریح کے لیے میوزک کنسرٹ یا نائٹ کلبز میں جاتے ہیں جہاں ہونے والا تیز شور شرابا سماعت کو متاثر کرسکتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق مختلف رپورٹس میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 67 لاکھ سے سوا ارب کے قریب جوان افراد کو قوتِ سماعت متاثر یا ختم ہونے جیسے خطرات لاحق ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ کے شریک مصںف اور میڈیکل یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولائنا سے منسلک آڈیولاجسٹ لورین ڈلارڈ کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے افراد سے متعلق ظاہر کیے جانے والے اندازے میں 67 لاکھ اور سوا ارب کے وسیع فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ بعض نوجوان ممکنہ طور پر ہیڈ فون کے استعمال اور کنسرٹ وغیرہ میں شرکت جیسے دونوں عوامل سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
احتیاط ضروری ہے
ڈلارڈ کا کہنا ہے کہ ہیڈ فون سے سننے کی قوت کو لاحق خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے آواز کم رکھنی چاہیے اور انہیں مختصر وقت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ بدقسمی سے لوگ بہت تیز موسیقی پسند کرتے ہیں جس کے اثرات پوری عمر ہمارے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
وہ تجویز کرتی ہیں کہ ہیڈ فون استعمال کرنے والوں کو اپنے اسمارٹ فونز کی سیٹنگز ایسی رکھنی چاہییں یا ایسی اپیلی کیشنز کا استعمال کرنا چاہیے جن میں ساؤنڈ لیول کی نگرانی کی جاسکتی ہو۔
ان کا کہنا ہےکہ جن مقامات پر بہت زیادہ شور ہو اس کے لیے ’نوائز کینسلنگ‘ ہیڈ فونز کا استعمال کرنا چاہیے جو ماحول میں پھیلے شور شرابے میں سےآپ کے کانوں تک صرف موسیقی پہنچاتے ہیں۔
ڈلارڈ تجویز کرتی ہیں کہ نائٹ کلبز اور میوزک کنسرٹس میں ایئر پلگز کا استعمال کرنا چاہیے۔ بڑے بڑے اسپیکر کے سامنے آکر بلند آواز میں موسیقی سننا آپ کے لیے پُرلطف تجربہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے اثرات آپ پر تاعمر رہیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ تیز آواز اور شور شرابے والے ماحول میں رہنے یا ہیڈ فونز کے مسلسل استعمال کی عادت کے اثرات پوری زندگی ہم پر رہتے ہیں اور ان کی شدت کا درست اندازہ اس وقت ہوگا جب آپ کی عمر 65 برس سے زیادہ ہو گی۔
ڈلارڈ حکومتوں پر زور دیتی ہیں کہ وہ سماعت سے متعلق خطرات کم کرنے کے لیے عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات کے مطابق ایسے مقامات کی نگرانی کریں جہاں بہت تیز موسیقی ہوتی ہے اور وہاں آواز کو محفوظ دائرے میں لانے کے لیے اقدامات کریں۔
وہ ہیڈ فونز وغیرہ جیسے آلات بنانے والی کمپنیوں پر بھی زور دیتی ہیں کہ وہ سننے والوں کو بہت تیز آواز کے نقصانات سے خبردار کریں اور اپنی ڈیواسز میں والدین کے لیے ایک ایسا لاک بھی رکھیں جن سے وہ چھوٹے بچوں کو نقصان دہ حد تک بلند موسیقی سے محفوظ بنا سکتے ہوں۔
حالیہ تجزیے میں جن تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا ہے وہ ترقی یافتہ ممالک میں مرتب کی گئی ہیں اور ان میں اوسطاً کم آمدن والے ممالک شامل نہیں ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کی قوتِ سماعت سے محرومی کے خدشات کا دائرہ وسیع اور قابلِ تشویش ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں 43 کروڑ افراد سماعت سے محروم ہیں جو کہ دنیا کی آبادی کا لگ بھگ پانچ فی صد بنتا ہے۔ ادارے کے مطابق 2050 تک یہ تعداد 70 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔