پاکستان کے صوبۂ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں ایک مبینہ بم دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور 18 زخمی ہو گئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع چمن میں پیر کی صبح ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان کے دھڑے حزب الاحرار نے قبول کر لی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق دھماکہ چمن کے علاقے مال روڈ پر اس وقت ہوا جب وہاں سے اینٹی نارکوٹکس فورس کے اہلکار گاڑی میں گزر رہے تھے۔
اسسٹنٹ کمشنر چمن ذکاء اللہ درانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق بم ایک موٹر سائیکل میں نصب تھا جس کا نشانہ اینٹی نارکوٹکس فورس کی گاڑی بنی۔ دھماکے سے گاڑی کو نقصان پہنچا اور اس کے شیشے ٹوٹ گئے جب کہ گاڑی میں سوار دو اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
واقعے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور زخمی افراد کو سول اسپتال چمن منتقل کیا۔
دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے دھڑے حزب الاحرار کے ترجمان ڈاکٹر عبدالعزیز یوسف زئی نے ذرائع ابلاغ کے نام ایک پیغام کے ذریعے قبول کی ہے۔
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دھماکے میں پاکستان کے خفیہ ادارے کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے دھماکے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کرائی جائیں گی۔
لیاقت شاہوانی کے بقول ماضی میں ایسے واقعات کے تانے بانے سرحد پار موجود شدّت پسندوں سے ملتے رہے ہیں اور چمن میں دہشت گردی کا حالیہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے چمن دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی ہے۔
ادھر وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اپنے بیان میں چمن دھماکے کو پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش قرار دیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے بقول "باڑ کی تنصیب سے سرحد کے آر پار دہشت گردی اور غیر قانونی نقل و حمل کا خاتمہ ہو گا اور سرحدی علاقوں سمیت صوبے بھر میں امن و امان کی صورتِ حال میں بہتری آئے گی۔"