بھارت کی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر کے قریب ایک مذہبی تقریب کے دوران ہونے والے بم دھماکے میں کم سے کم تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور دس افراد زخمی ہیں۔
اتوار کو ہونے والا یہ بم دھماکہ ہنیڈ گرینڈ کے ذریعے کیا گیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق موٹرسائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے ایک عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی جس میں ایک مذہبی روحانی گروہ کا اجلاس جاری تھا۔
مسلح افراد گیٹ پر کھڑی خاتون پر بندوق تان کر اندر داخل ہوئے اور وہاں موجود افراد پر ہینڈ گرینڈ پھینک کر فرار ہو گئے۔
امرتسر میں یہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب آئندہ ہفتے سکھوں کا اہم مذہبی تہوار ہے۔
اس واقعے کے بعد پولیس نے فوری طور پر اس کی تصدیق کرنے سے گریز کیا لیکن بعد میں تصدیق کر دی۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب انٹلی جنس کی اس رپورٹ پر کہ جیش محمد کے چھ سات دہشت گرد ریاست میں داخل ہو گئے ہیں، پنجاب پولیس نے ہائی الرٹ کر رکھا تھا۔
پولیس نے کہا کہ اس حملے کا تعلق عسکریت پسند گروپ انصار غزوة الہند کے ذاکر موسی سے نہیں ہے۔
ضلعے کے سینیئر پولیس افسر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’تین افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ابھی مزید معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔‘
راجہ سانسی کے ایس ایچ او سکھجندر سنگھ نے وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ یہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ تھا یا ذاتی رنجیش کا ، کچھ بھی بتانے سے انکار کیا اور کہا کہ اعلیٰ افسران موقع پر پہنچ گئے ہیں۔ تحقیقات کی جا رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد ہم کچھ بتا سکیں گے۔
امرتسر کے ایم پی اے گورجیت سنگھ نے بھی اسے فی الحال دہشت گرد حملہ قرار دینے سے گریز کیا اور کہا کہ اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ کچھ دیر کے بعد ہی واضح ہو سکے گا کہ حملے کی نوعیت کیا تھی۔
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور ریاست کے وزیر اعلی امریندر سنگھ نے حملے کی مذمت کی۔ وزیر اعلی نے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کا جائزہ لیا۔
اس سے قبل پنجاب کے عہدیداروں نے بتایا تھا کہ ذاکر موسیٰ کو مبینہ طور پر امرتسر کے ایک گنجان آبادی والے علاقے میں دیکھا گیا اور ان کے ہمراہ چند اور نامعلوم افراد بھی تھے۔ جس کے بعد شہر کے دینا نگر پولیس اسٹیشن نے ان کی تصویر کے پوسٹر جاری کیے تھے۔
نانکاری روحانی مذہبی گروہ کا بعض معاملات پر سکھوں سے اختلاف ہے۔
بھارتی پنجاب میں سکھوں کی اکثریت ہے اور ماضی میں بھی کئی مرتبہ یہاں مذہبی فسادات ہوئے ہیں۔