ویب ڈیسک ۔امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے نیٹو کے نئے رکن ملک فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی کے سٹی ہال میں خطاب کرتے ہوئےجمعے کے روز کہا کہ یوکرین میں جنگ بندی کا اعلان اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ یہ ایک ’’منصفانہ اور دیرپا‘‘ امن معاہدے کا حصہ نہ ہو اور جس میں روس کا فوجی انخلاء بھی شامل ہو۔
بلنکن نے کہا کہ ’’ایک ایسی جنگ بندی جو موجودہ صورتحال کو برقرار رکھتی ہو اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کو ’’اس علاقے پر کنٹرول مضبوط کرنے کی اجازت دیتی ہو جس پر وہ قابض ہیں اور جو دوبارہ مسلح ہونے اور حملہ کرنے کا اختیار دیتی ہے تو اس کا نتیجہ منصفانہ اور پائیدار امن نہیں ہے۔ ‘‘
روس کو یوکرین کی تعمیر نو کے لئے اپناحصہ بھی ادا کرنا چاہیے اور فروری 2022 میں اپنے پڑوسی پربھرپور حملے کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ بلنکن کے بقول ماسکو کو یوکرین کے پانچویں حصے پر قابض رہنے کا اختیار دینے سے سے روس اور ’’دنیا بھر میں جارحانہ عزائم کے حامل عوامل ‘‘ کو غلط پیغام ملتا ہے ۔تاہم روس یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی درخواست کا معاملہ حل کرنے کے لیے بات چیت کا خواہاں ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے مغربی فوجی اتحاد میں اپنے ملک کی رکنیت کے لیے زور دیا ہے جسے کریملن ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے جمعے کو کہا کہ قدرتی طور پر یہ (معاملہ ) آنے والے کئی سالوں میں پریشان کن ممکنہ مسائل میں سے ایک ہو گا۔
یوکرین کے دارالحکومت پر حملوں کے حالیہ سلسلے نے شہر کے مکینوں پر دباؤ ڈالا ہے اور یوکرین کی فضائی دفاعی قوت کی آزمائش ہوئی ہے۔ کیف کے حکام کہتے ہیں کہ وہ کریملن کی افواج کو پسپا کرنے کے لئے جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ کیف کو گزشتہ ماہ کے دوران سترہ دن ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں دن کی روشنی میں ہونے والے حملے بھی شامل تھے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کے مطابق ماسکو کی یہ حکمت عملی اس کے اپنے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے ۔اس فضائی مہم کا مقصد ’’یوکرین کی جوابی کارروائیوں کی صلاحیت کو کم کرنا ہے، لیکن ممکنہ طور پر کیف کے لئے روس کی یہ ترجیح جوابی کارروائیوں کو روکنے کی اس کی صلاحیت کو مزید محدود کر رہی ہے۔
سرحد پار حالیہ حملوں نے روس کے کچھ علاقوں کو بھی متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں کریملن چوکس ہو گیا ہے۔ برطانیہ کی وزارت دفاع نے جمعے کے روز کہا ہے کہ جوابی کارروائی شروع ہونے سے پہلے روسی افواج کو منتشر کرنے کے لیے یہ یوکرین کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ وزارت کے مطابق ’’اب روسی کمانڈروں کو شدید مخمصے کا سامنا ہے کہ آیا وہ روس کے سرحدی علاقوں میں دفاع کو مضبوط کریں یا یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کریں ‘‘۔
وزیر خارجہ بلنکن کا خطاب روس یوکرین جنگ کے بارے میں امریکی مؤقف کا اعادہ تھا تاہم یہ خطاب ایک ایسے ملک میں کیا گیا جس کی روس کے ساتھ آٹھ سو میل سے زیادہ لمبی سرحد ہے اور اب جس کے دفاع کے لیے نیٹو اتحاد پرعزم ہے۔ وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ اپریل میں فن لینڈ کا نیٹو میں باضابطہ داخلہ’’ایک ایسی تبدیلی تھی جس کا یوکرین کی جنگ سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘‘ -
امریکی وزیر خارجہ نے فن لینڈ، ناروے اور سویڈن کے ایک ہفتہ طویل دورے کے اختتام پر یہ خطاب کیا اس دورے میں ان کی نیٹو حکام کے ساتھ ملاقاتیں شامل تھیں جن کا مقصد یوکرین کے لئےمغربی عزم کو اجاگر کرنا اور اتحاد کے کیف کے ساتھ طویل مدتی تعلقات پر تبادلہ خیال کرنا تھا ۔ یوکرین نیٹو میں داخلے اور سلامتی کی ضمانتیں چاہتا ہے۔ سویڈن بھی نیٹو میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکی حکام کو امید ہے کہ وہ اس ضمن میں ترکی کے اعتراضات کو جلد ختم کرا سکیں گے۔
اس خبر کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے