امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے افغانستان سے امریکی افواج کے ہنگامہ خیز انخلا کے معاملے کا جائزہ لینے والی کانگریس کی کمیٹی کے سامنے آئندہ ہفتے گواہی دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ انخلا کا کام دو عشروں پر محیط لڑائی کے خاتمے پر ہوا، جو امریکی تاریخ کی طویل ترین لڑائی تھی۔
حزب مخالف ری پبلکن قانون سازوں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے چند ساتھی ارکان نے فوج، امریکی شہریوں اور ہزاروں افغان باشندوں کے انخلا کے معاملے سے نبردآزما ہونے پر شدید تنقید کی ہے۔ یہ افغان باشندے جنگ کے دوران امریکی افواج کے ہمراہ مترجم اور مشیروں کی حیثیت سے کام انجام دیا کرتے تھے۔
یہ معاملہ اس وقت ہدف تنقیدبناجب انخلا کے آخری ایام تھے اور کابل ایئرپورٹ کے قریب خود کش بمبار نے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 13 امریکی فوجی اہل کار ہلاک ہوئے۔ داعش خراسان نے حملے کی ذمے داری قبول کی، جو مشرق وسطیٰ میں کارفرما دہشت گرد گروپ کا ایک دھڑا ہے۔
سینیٹ کی امور خارجہ کی قائمہ کمیٹی کا یہ اجلاس آئندہ منگل کو ہو گا، جس کے روبرو گواہی دینے کی بلنکن نے حامی بھری ہے، جب کہ عین ممکن ہے کہ کانگریس کی دیگر کمیٹیاں بھی انخلا کے معاملے پر تفتیش کے لیے اجلاس منعقد کریں۔
انخلا کا باضابطہ اختتام ایک ہفتہ قبل ہوا، لیکن تقریباً 100 امریکی شہری اب بھی افغانستان میں ہیں۔ امریکی عہدے داروں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ ملک سے باہر نکلنا چاہیں گے تو ان کے انخلا کے کام کو یقینی بنایا جائے گا۔ ساتھ ہی ہزاروں افغان باشندے امریکہ یا دیگر ملکوں کی جانب جان بچا کر نکلنے کے خواہش مند ہیں، تاکہ وہ طالبان باغیوں کے حکومت پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد بحفاظت باہر نکل سکیں۔
رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ امریکی اکثریت افغانستان سے ''ہمیشہ جاری رہنے والی جنگ'' سے دستبرداری سے متعلق بائیڈن کے فیصلے کی وسیع تر حمایت کرتی ہے، لیکن جس طرح سے انخلا کیا گیا اس پر وہ خوش نہیں ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار کے طور پر، بلنکن کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا، مثلاً امریکی شہریوں کو فوری طور پر ملک سے باہر نکالنے کا کام کیوں سر انجام نہیں دیا گیا،جب کہ اپریل میں بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ وہ جنگ کے خاتمے اور امریکی افواج کے انخلا سے متعلق طالبان کے ساتھ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سمجھوتے کی پاسداری کریں گے۔
قانون سازوں نے امریکی انٹیلی جنس کی معلومات فراہم کرنے کے معاملے میں ناکامی پر بھی شدید تنقید کی ہے جو طالبان کے تیزی سے ملک پر قبضے اور افغان حکومت کے گرنے سے متعلق بروقت پیش گوئی میں ناکام رہے، ایسے میں جب کہ صدر اشرف غنی کو اچانک ملک سے فرار ہو کر متحدہ عرب امارات میں سیاسی پناہ لینا پڑی۔
ری پبلکنز کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی کے آخری ہفتوں اور دنوں کے دوران بائیڈن کی کارکردگی پر سوال اٹھائیں گے، جب کہ ڈیموکریٹس امریکی جنگ کے تمام برسوں کے جائزے کا معاملہ اٹھائیں گے جو چار صدور کے ادوار کے دوران جاری رہا، ان برسوں میں ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے جارج ڈبلیو بش اور ٹرمپ؛ اور ڈیموکریٹ پارٹی کے براک اوباما اور بائیڈن اقتدار میں رہے۔
گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملوں کے بعد القاعدہ کے دہشت گردوں کی تربیت گاہوں کو نیست و نابود کرنے کی غرض سے بش نے 2001ء کے اواخر میں أفغانستان پر چڑھائی کی تھی۔
گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں میں تقریباً 3000 امریکی ہلاک ہوئے، جس میں امریکی مسافر طیاروں کو ہائی جیک کر کے دہشت گرد حملے کیے گئے۔ ان حملوں کی 20 ویں برسی بروز ہفتہ منائی جائے گی۔