دنیا کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی تصویر نہ کسی مصور نے تخلیق کی ہے، نہ کمپیوٹر پر بنائی گئی ہے، نہ کسی کرنسی نوٹ پر چھپی ہوئی ہے اور نہ کسی کتاب کا سرورق بنی ہے۔
اس تصویر کا نام 'بلس' ہے۔ بہت سے لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ کسی تصویر کو ایک ارب افراد پہچان سکتے ہیں۔ لیکن جب وہ خود اس تصویر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔
یہ تصویر امریکی فوٹوگرافر چارلز اورئیر نے جنوری 1998 میں کھینچی تھی۔ وہ کیلی فورنیا کے شہر سینٹ ہیلینا میں اپنے گھر سے ناپا ویلی جا رہے تھے جو سان فرانسسکو کے شمال میں واقع ہے۔ ان کا ارادہ اپنی گرل فرینڈ ڈیفنی سے ملنے کا تھا، جن سے بعد میں انھوں نے شادی کرلی۔
انھیں دنوں ایک طوفان وہاں سے گزرا تھا اور بارشوں کی وجہ سے موسم حسین اور منظر دلفریب تھا۔ سونوما ہائی وے سے گزرتے ہوئے چارلز کو ہریالی سے ڈھکی پہاڑی دکھائی دی اور انھوں نے گاڑی روک کر اپنے پرانے کیمرے سے چند تصاویر بنالیں۔
ان کے پاس مامیا آر زیڈ 67 کیمرا تھا جو پیشہ ور فوٹوگرافر استعمال کرتے تھے۔ اس میں فیوجی فلم کی ویلویا ریل تھی جو دن میں تصاویر اتارنے کے لیے بہتر سمجھی جاتی تھی۔ چارلز نے بعد میں کہا کہ تصویر اس لیے اچھی آئی کہ کیمرے اور فلم کا کمبی نیشن بہت اچھا تھا۔
انھوں نے وہ تصویر فوٹوکمپنی ویسٹ لائٹ کے ذریعے فروخت کے لیے پیش کر دی۔ یہ گیٹی امیجز جیسی کمپنی تھی جسے انھوں نے ایک دوست کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا۔ ویسٹ لائٹ کو بعد میں بل گیٹس کی کمپنی کوربس نے خرید لیا۔
چارلز نے بتایا کہ 2000 میں مائیکروسافٹ نے ان سے رابطہ کیا اور تصویر خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے اتنی بڑی رقم کی پیشکش کی کہ چارلز کے ہوش اڑ گئے۔ ان کے بقول، یہ دنیا میں کسی بھی فوٹو کے لیے ادا کی گئی دوسری بڑی رقم تھی۔
انھوں نے مائیکروسافٹ سے رازداری کے معاہدے کی وجہ سے رقم کبھی کسی کو نہیں بتائی۔ لیکن خیال ہے کہ انھیں کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ جب انھوں نے مائیکروسافٹ کو کورئیر سے فلم بھیجنے کی کوشش کی تو تمام کمپنیوں نے معذرت کرلی، کیونکہ تصویر ان کی انشورنس کوریج سے زیادہ مہنگی ہوچکی تھی۔
آخر چارلز خود مائیکروسافٹ کے صدر دفتر گئے اور فلم دے کر معاہدے پر دستخط کردیے۔ انھوں نے تصویر کا عنوان بیوکولک گرین ہلز رکھا تھا۔ لیکن مائیکروسافٹ نے اسے 'بلس' کا نام دیا اور ونڈوز ایکس پی کا ڈیفالٹ وال پیپر بنا ڈالا۔
یہ فوٹو اس قدر سحر انگیز ہے کہ بہت سے لوگ اسے حقیقی نہیں مانتے اور فوٹوشاپ کا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ ابتدا میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر یہ حقیقی تصویر ہے تو نیوزی لینڈ، آئرلینڈ، سوئزرلینڈ یا یورپ کے کسی اور حسین مقام پر کھینچی گئی ہوگی۔ بے شمار لوگوں کو یقین ہے کہ اسے ضرور ایڈٹ کیا ہوگا۔ چارلز کے مطابق، اس تصویر کو ہرگز ایڈٹ نہیں کیا گیا اور انھوں نے جیسی کھینچی تھی، ویسی ہی پیش کی گئی ہے۔
چارلز اورئیر نے زندگی بھر تصویریں کھینچی ہیں اور نیشنل جیوگرافک کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے دس کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی وجہ شہرت اور انھیں یاد رکھے جانے کی وجہ یہی تصویر بلس رہے گی۔
نومبر 2006 میں پروفیشنل فوٹوگرافرز کی جوڑی سائمن گولڈن اور جیکب سینیبی نے اسی مقام کا دورہ کیا جہاں چارلز نے بلس کھینچی تھی۔ انھوں نے بھی تصویر بنائی لیکن موسم اور حالات مختلف ہونے کی وجہ سے اس مقام کو پہچاننا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی تصویر کئی نمائشوں میں پیش کی ہے۔ لیکن وہ چارلز کی تصویر کا عشر عشیر بھی نہیں۔