رسائی کے لنکس

پاکستان کی عدم شرکت سے بون کانفرنس متاثر ہوسکتی ہے: افغان وزارت خارجہ


پاکستان میں نیٹو حملے کے خلاف مظاہرے
پاکستان میں نیٹو حملے کے خلاف مظاہرے

پاکستان کي طرف سے 5 دسمبر کو جرمني کے شہر بون ميں افغانستان کے مستقبل کے بارے ميں ہونے والي بين لا قوامي کانفرنس مين شامل نہ ہونے کے فيصلے پر ، افغانستان سے وزارت خارجہ کے ترجمان ، جانان موسي زئي نے وآس آف امريکہ کو ايک انٹرويو ميں بتايا کہ ايسي اطلاعات کے باجود انہيں اميد ہے کہ پاکستان ماضي ميں کيے ہوئے اپنے وعدوں کو سامنے رکھتے ہوئے ، بون کانفرنس ميں شرکت کريگا۔ ٴ انکا کہنا تھا کہ افغانستان کو پاکستان کي جانب سےباضابطہ طور پر کوئي ايسي اطلاع موصول نہيں ہوئي ہے۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ افغان حکومت چاہتي ہے کہ پاکستان اس کانفرنس ميں ضرور شرکت کرے کيونکہ علاقے ميں امن کے قيام کے لئے پاکستان کا کردار انتہائي اہم ہے۔

جانان موسي زئي کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کي خواہش ہے کہ اسکے تمام ہمسايہ ممالک اس کانفرنس ميں شريک ہوں اور افغانستان ميں قيام امن کي کوششوں ميں حصہ ليں۔

توقع کي جا رہي تھي کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بون کي اس کانفرنس ميں طالبان کے نمائندے بھي شامل ہوں گے۔ ايک سوال کے جواب ميں ، افغان وزارت خارجہ کے ترجمان جانان موسي زئي کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس ميں طالبان کي شموليت ، افغانستان ميں امن کے قيام کي کوششوں ميں اہم پيش رفت کي عکاسي ہوتي ليکن انکے مطابق طالبان کے کسي بھي نمائندے کي اس کانفرنس ميں شموليت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہيں۔

تاہم جانان موسي زئي نے زور ديتے ہوئے کہا کہ بون کي اس کانفرنس ميں طالبان کے کسي نمائندے کے شامل نہ ہونے کا مطلب ہر گز يہ نہيں کہ اس سے قيام امن کے لئيے جاري کوششوں پر کوئي منفي اثرات پڑينگے يا پھر يہ عمل رک جائے گا۔ تاہم انکے مطابق پاکستان کے شامل نہ ہونے کي وجہ سے کانفرنس کے نتائج کسي حد تک متاثر ہو سکتے ہيں۔

جرمني ميں ہونے والي اس کانفرنسس کو جہاں افغان حکومت اور بين لاقوامي برادري اس کانفرنس کو اہميت دے رہي ہے وہاں افغان عوام بھي اس سے کافي توقعات وابستہ رکھے ہوئے ہيں۔ بعض مبصرين کا خيال ہے کہ دہشت گردي کے خلاف جنگ ميں پاکستان کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے بون کانفرنس ميں اسکي عدم موجودگي کانفرنس کے لئے ايک دھچکا ہو گي۔

XS
SM
MD
LG