ویب ڈیسک۔ انسانی جسم کا ایک ایسا خلیہ جو مرنے سے انکاری ہو.اپنی حیات کی تگ دو میں کسی امربیل کی طرح ایسے پھلتا بڑھتا ہے کہ خود انسان ہی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ کینسر ہے!
اقوام متحدہ کے سال 2020 کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں کینسر سے لگ بھگ ایک کروڑ اموات ہوئیں۔ گو کہ ان اموات میں اب بھی پھیپھڑوں کے سرطان سے ہونے والی اموات کی تعداد زیادہ ہے لیکن کینسر کے سالانہ مجموعی کیسز میں چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کے کیسز کی تعداد اب پھیپھڑوں کے سرطان کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف کونوں میں ہر چھیالیس سیکنڈ میں ایک عورت بریسٹ کینسر سے زندگی کی جنگ ہار جاتی ہے۔ (komen.org)
پاکستان پر نظر ڈالیں تو گلوبل کینسر آبزرویٹری کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں کینسر کی تمام اقسام کے مقابلے میں بریسٹ کینسر کے کیسز کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے اور اموات کی شرح بھی۔
کینسر پر اعدادوشمار فراہم کرنے والے آن لائن پورٹل گلوبوکین کے مطابق سال 2020 میں پاکستان میں خواتین میں چھاتی کے سرطان کے 25,928 نئے کیسز سامنے آئے جبکہ 12,725 اموات ہوئیں۔
اس ہفتے وائس آف امریکہ کے آن لائن پروگرام ع-مطابق میں بریسٹ کینسر پر گفتگو کی گئی جس میں ماہرین نے اس موذی مرض کے بارے میں تفصیل سے آگاہی دی۔یہ پروگرام وائس آف امریکہ کے فیس بک اور یو ٹیوب چینل پر ہر پیر کو پاکستان میں رات نو اور بھارت میں ساڑھے نو بجےپیش کیا جاتا ہے۔
سالانہ طبی معائنوں کی اہمیت
پاکستان میں عموماً ڈاکٹر کے پاس تب ہی جایا جاتا ہے جب کوئی بیماری لاحق ہو۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں خواتین اور مرد حتیٰ کہ بچوں کا بھی فیملی ڈاکٹرز سے سالانہ طبی معائنہ لازم ہے۔ ان معائنوں اور ٹیسٹس میں اندرونی اعضاء کے ساتھ بلڈ پریشر، ذیابطیس، کولیسٹرول کی زیادتی جیسی بیماریوں کی جانچ ہوتی ہے۔
خواتین کے طبی معائنے میں 'پیپ سمیئر ٹیسٹ' کیا جاتا ہے جس سے رحم کے نچلے حصے میں کسی ممکنہ کینسر کو جانچا جاتا ہے۔ اسی طرح 40 سال اور اس سے زائد عمرکی خواتین کا سالانہ میموگرام یعنی بریسٹ ایکسرے کیا جاتا جس میں چھاتی میں کسی غیرمتوقع تبدیلیوں یا رسولیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
جلد تشخیص ہی کی وجہ سے امریکہ میں سالانہ بریسٹ کینسر کے کیسز کی تعداد پھیپھڑوں کے کینسر کے کیسز سے زائد ہونے کہ باوجود اس میں شرح اموات پھیپھڑوں کے کینسر کے مقابلے میں کم ہے۔
پاکستان میں چونکہ گائناکالوجسٹ کے پاس تب ہی جایا جاتا ہے جب زنانہ طبی مسائل درپیش ہوں اس لیے خواتین کی اکثریت میموگرام کروانے کے مشورے اور اس کی اہمیت جاننے سے محروم رہتی ہے۔
انٹرنیٹ پر اگر تلاش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کی مختلف بڑی لیبارٹریز 2500 روپے یا اس سے زائد میں یہ ٹیسٹ کرتی ہیں۔
امریکی ریاست ورجینیا میں گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شعوانہ مفتی کہتی ہیں کہ ویسے تو خواتین کو 40 سال کی عمر کو پہنچنے پر ہی میموگرام کا مشورہ دیا جاتا ہے مگر ایسی خواتین جن کے خاندان میں پہلے سے کینسر کی کوئی ہسٹری موجود ہو انہیں پینتیس سال یا اس بھی کم عمرمیں میموگرام کرانے کے لیے کہا جاتا ہے۔
بریسٹ کینسر کی وجوہات
بریسٹ کینسر کیوں ہوتا ہے؟کیا کینسر اور بریسٹ کینسر موروثی ہی ہوتا ہے؟ کیا اس سے بچنا مشکل ہے؟ ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے امریکی ریاست نیویارک کے گلین فالز ہسپتال میں آنکولوجسٹ ڈاکٹرعقیل گیلانی کہتے ہیں کہ اس کی وجوہات کے بارے میں واضح طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر کینسر کے مریضوں کے ڈیٹا بیس پر نظر ڈالیں تو یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اس کے مریضوں کی بڑی تعداد ساٹھ سال سے زائد عمر کی ہوتی ہے یعنی بڑھتی عمر کیساتھ اس کا خطرہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ ڈاکٹرعقیل گیلانی اس بارے میں مزید وضاحت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب اس سے کم عمر کے کیسز سامنے آنا بھی عام بات ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر عقیل کے مطابق کینسر کے مریضوں میں بڑی تعداد فربہ بدن اور ان افراد کی بھی پائی گئی جن کا طرز زندگی سست ہے اور وہ ورزش یا چہل قدمی کو اہمیت نہیں دیتے۔
کینسر کے موروثی یا غیر موروثی ہونے کے بارے میں ڈاکٹر عقیل کا کہنا ہے کہ کینسر بالکل موروثی ہو سکتا ہے مگر ایسے کیسز کی تعداد دس فیصد سے زیادہ نہیں۔ خاندانی ہسٹری میں کینسر کا مرض اگر پہلے موجود رہا ہے تواب ایسے جینیاتی ٹیسٹ موجود ہیں جنہیں کروا کر مستقبل میں اس کے ہونے کے خطرے کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔
ماہرین تجویز یہ کرتے ہیں کہ خواتین سال میں ایک بار گائناکالوجسٹ سے اپنی بریسٹ کا معائنہ کرانے کے علاوہ ہر ماہ خود بھی اپنامعائنہ کریں اور بغلوں کو ٹٹولیں۔ ان میں کسی تبدیلی، تکلیف، گٹھلیاں محسوس ہونے اور جلد کی سطح سرخ ہونے یا سوزش کی صورت میں فوری ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
بریسٹ کینسر پر ہم نے کیا سیکھا؟
امتناعی اقدامات: اپنی صحت پر توجہ دے کر، غذا بہتر کرکے اور ورزش کو شعار بنا کربریسٹ کینسر کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
جلد تشخیص: بریسٹ کینسر کی بروقت تشخیص یعنی اس وقت جب اس کی علامات بھی واضح نہ ہوں اس کے بارے میں علم ہوجانے سے اس پر قابو پانا آسان ہے۔ اس کے لئے اپنا خود ماہانہ معائنہ کریں۔ گائناکالوجسٹ سے سالانہ معائنے کی عادت اپنائیں اور ڈاکٹر کے مشورے سے سالانہ سکریننگ بھی کرائیں۔
علاج: کینسر کےعلاج میں گزرے وقتوں کےمقابلے میں کافی ترقی ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں مزید تحقیق بھی جاری ہے۔ کینسر ہو جانے کی صورت میں ماہرین کی پوری ٹیم ہر کیس کا جداگانہ تجزیہ کرکے بہترین علاج کا لائحہ عمل طے کرتی ہے۔
سرطان خواہ کسی بھی قسم کا ہو، اس کا علاج مہنگا بھی ہو سکتا ہے اور طویل بھی۔ مریض پر اس کے جسمانی اور ذہنی اثرات دیر پا ہو سکتے ہیں جبکہ ایک بار علاج ہوجانے کے بعد دوبارہ کینسر ہونے کا امکان بھی موجود رہتا ہے۔
خواتین میں چونکہ چھاتی کا سرطان کینسر کی سب سے عام قسم ہے اور اس کی بروقت تشخیص کے لیے سکریننگ کی سہولت عام موجود ہے تو اسے نظر انداز کرنا اپنی ذات سے لا پرواہی ہوگی۔