"مجھے آج سے نو برس قبل سینے میں درد اُٹھا تھا تو میں سمجھی کہ کوئی وزنی چیز اٹھانے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اور پھر مجھے اس درد کی عادت ہو گئی تھی۔"
ایسا کہنا ہے کراچی کے علاقے لیاری کی رہائشی فاطمہ کا جو جناح اسپتال کے آنکولوجی ڈپارٹمنٹ کی او پی ڈی میں علاج کے لیے دوسری مرتبہ آئی تھیں۔
فاطمہ چھاتی کے سرطان کے مرض کا شکار ہیں اور وہ اپنا علاج کرا رہی ہیں۔
پچپن سالہ فاطمہ کے بقول، "ایک برس قبل مجھے سینے پر دانے نکلے تو لگا کہ یہ گرمی کی وجہ سے ہوئے ہیں لیکن جب وہ رسنے لگے تو جلد کے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ جس کے بعد کچھ ٹیسٹ کرائے تو معلوم ہوا کہ مجھے چھاتی کا سرطان ہے اور وہ اب بگڑ چکا ہے۔"
کراچی کی رہائشی عالیہ کی بڑی بہن چھاتی کے سرطان کی وجہ سے رواں برس چل بسی تھیں۔
ان کے بقول بہن کے سسرال والوں نے اس بیماری کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے ان کا علاج ہومیو پیتھک اور روحانی طریقے سے کرانا شروع کر دیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب آپی کا انتقال ہوا تو ان کے جسم سے رسنے والے خون اور پیپ کو روکنے کے لیے غسل کے وقت بھی کئی پٹیاں باندھی گئیں۔
عالیہ کہتی ہیں اگر والدین کسی طرح بہن کا علاج کرانے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو آج ان کی بہن اپنے بچوں کے ساتھ ہوتیں۔
عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں کینسر کی مختلف اقسام سے ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ اموات اور ایک لاکھ 78 ہزار سے زیادہ نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان اموات اور کیسز میں سب سے زیادہ شرح چھاتی کے سرطان کے مریضوں کی ہے جس میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔
کنسلٹنٹ ریڈیولوجی ڈاکٹر عظمیٰ عمیر کے مطابق خواتین اپنی صحت کے معاملے میں سب سے زیادہ لاپرواہ ہوتی ہیں۔ اگر انہیں چھاتی میں کوئی تکلیف بھی ہو تو وہ یہ سوچتی ہیں کہ کیسے بتائیں؟ کسے بتائیں؟ کون کیا سوچے گا؟
ڈاکٹر عظمیٰ عمیر کے بقول ان ہی سوالات کی وجہ سے خواتین علاج میں تاخیر کرتی جاتی ہیں جس کے سبب وہ اکثر تکلیف بڑھا کر اس وقت اسپتال آتی ہیں جب مرض بڑھ چکا ہوتا ہے اور علاج بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔
'ہر دس میں سے ایک عورت کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے'
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ایشیائی ممالک میں پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہر دس میں سے ایک عورت کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خواتین جن کی عمر 40 برس سے زائد ہو انہیں اپنی اسکریننگ لازمی کرانی چاہیے اور اگر کسی کے خاندان میں یہ بیماری ہو تو ایسی خواتین کو 40 برس کی عمر سے پہلے بھی اسکریننگ کرانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بروقت مرض کی تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج نہ صرف ممکن ہے بلکہ مریض صحت مند زندگی بھی گزار سکتا ہے۔
آٹھ بچوں کی والدہ 47 سالہ روبینہ صغیر بھی بریسٹ کینسر میں مبتلا ہیں اور ان کی کامیاب سرجری ہو چکی ہے جب کہ وہ اب جناح اسپتال میں کیمو تھراپی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔
اپنی بیماری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی کی وجہ سے ہی انہیں اپنی بیماری کو جاننے میں بہت مدد ملی۔
روبینہ صغیر کے مطابق انہیں اپنے سینے میں گٹھلی محسوس ہوئی جس پر انہوں نے اپنے شوہر اور بچوں سے بات کی اور وہ فوراً اسپتال چیک اپ کے لیے آگئیں جہاں ان کی میموگرافی کی گئی جس کے دوران چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔
روبینہ کے سینے پر موجود گٹھلی کا سائز سات سینٹی میٹر ہے اور وہ اسٹیج تھری کی مریضہ ہیں۔ ان کے بقول انہیں کئی کیموتھراپی اور ریڈی ایشن کے مرحلے سے گزرنا ہو گا جس کے بعد وہ مکمل صحت یاب ہو جائیں گی۔
لیکن روبینہ کی طرح مرض کو سمجھنے اور فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنے والی خواتین کی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔ اسپتال میں آنے والے بہت سے مریض ایسے ہیں جو سالہا سال اس بیماری کو پالتے ہیں اور پھر ڈاکٹر کے پاس آتے ہیں۔
'مرض کے مکمل علاج میں لگ بھگ 40 لاکھ کا خرچہ آتا ہے'
ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر غلام حیدر کا کہنا ہے کہ آگاہی اور تعلیم کی کمی بھی فوری علاج نہ ہونے کی ایک بڑی رکاوٹ ہے، اس کے علاوہ لوگ حکیمی نسخوں، ہومیو پیتھک اور روحانی علاج سے مریض کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے تاخیر ہوتی جاتی ہے اور مرض آخری اسٹیج پر جا پہنچتا ہے۔
ان کے بقول علاج میں تاخیر کی دوسری وجہ اس مرض کا مہنگا علاج ہونا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس وجہ سے لوگ سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جہاں سالانہ کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر غلام حیدر کے مطابق جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں سالانہ تمام اقسام کے کینسر کے مریضوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے جس میں بڑی تعداد چھاتی کے سرطان کے مریضوں کی ہے جب کہ پرانے مریضوں کی تعداد 36 ہزار سے زائد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مرض کے علاج کا تخمینہ لگ بھگ 40 لاکھ روپے ہے جو کسی بھی غریب اور متوسط طبقے کے لیے ادا کرنا نا ممکن ہے۔
کراچی میں کینسر کے مفت علاج کی سہولت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیرِ انتظام کرن اسپتال (کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیو تھراپی اینڈ نیوکلیئر) میں ہے جب کہ نجی اسپتالوں میں بھی اس کا علاج کیا جاتا ہے۔
لیکن کراچی کے سرکاری اسپتالوں سول، عباسی شہید اور قطر اسپتال میں چھاتی کے سرطان کا مکمل علاج نہیں ہے لیکن اسکریننگ کی سہولت موجود ہے۔ جس کے بعد مزید علاج کے لیے مریضوں کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ کراچی کا واحد سرکاری اسپتال ہے جہاں ایک چھت تلے کینسر کے تمام علاج کی سہولیات موجود ہیں۔
اس وقت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور مخیر افراد کے تعاون سے اسپتال میں جدید سہولیات اور مشینری موجود ہے جس سے بلا معاوضہ مریض علاج کی سہولت پا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس اسپتال پر صرف صوبے بھر سے نہیں بلکہ ملک بھر سے آنے والے مریضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
'کینسر کی او پی ڈی میں صرف ایک سرکاری ڈاکٹر موجود ہے'
ڈاکٹر عظمیٰ عمیر کے مطابق کسی بھی نجی اسپتال کے مقابلے میں یہاں تمام جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔ یہاں الٹرا ساؤنڈ بریسٹ، میموگرافی، ٹومو سینتھیسس (جلد تشخیص) کرنے کے آلات سے لے کر کمپریشن، میگنیفکیشن کی وہ تمام جدید سہولیات موجود ہیں جو عالمی معیار کے مطابق ہیں۔
ان کے مطابق یہ تمام مشینری چھاتی کے سرطان کے علاج میں معاونت فراہم کر رہی ہیں اور اس کا مریضوں سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا۔
ڈاکٹر عظمیٰ کا کہنا ہے کہ چھاتی کے سرطان کے حوالے سے بڑھتی ہوئی آگاہی مہم کی وجہ سے خواتین اب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بہت سی خواتین تاخیر سے علاج شروع کروا رہی ہیں وہیں ایسی خواتین خاص کر کم عمر بچیاں بھی اسکریننگ کے لیے آ رہی ہیں۔
ان کے مطابق کم عمر بچیاں جنہیں اپنے جسم میں کوئی تبدیلی یا درد محسوس ہوتا ہے وہ ڈاکٹر کے پاس آتی ہیں۔ یہ سب آگاہی کے سبب ہی ممکن ہو پایا ہے جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین بروقت علاج شروع کرا کر صحت مند زندگی جی سکیں۔