|
ترکیہ کے وزیر تجارت عمر بولات نے کہا ہے کہ انکے ملک کو برکس گروپ کی جانب سے پارٹنر ملک کا درجہ دینے کی پیشکش کی گئی ہے، ان کا کہنا ہے کہ انقرہ نے مشرق اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوششوں کو جاری رکھا ہے۔
نیٹو کے رکن ترکیہ نے حالیہ مہینوں میں برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ، ایتھوپیا، ایران، مصر اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل ابھرتی ہوئی معیشتوں کے BRICS گروپ میں شامل ہونے میں دلچسپی کا اظہار کیاتھا۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے گزشتہ ماہ کازان میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی میزبانی میں منعقد ہونے والے برکس سربراہ اجلاس میں شرکت کی، اس وقت انقرہ نے کہا کہ اس نے گروپ کا رکن بننے کے لیے باضابطہ اقدامات کیے ہیں۔
بولات نے بدھ کے روز نجی نشریاتی ادارے TVNet کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، "جہاں تک (BRICS) کی رکنیت کے حوالے سے ترکی کا تعلق ہے، انہوں نے ترکی کو پارٹنر کے درجے کی رکنیت کی پیش کش کی ہے۔"
ایردوان نے کہا ہے کہ انقرہ برکس گروپ کو مغرب سے اپنے تعلقات اور نیٹو کی رکنیت کے متبادل کے بجائے رکن ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون کو مزید بڑھانے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔
ترک حکام اس کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ برکس کی ممکنہ رکنیت سے مغربی فوجی اتحاد میں ترکی کی ذمہ داریوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
23 اکتوبر کو برکس کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق، مکمل رکنیت کے علاوہ، برکس کے اراکین نے کازان میں ایک "پارٹنر ملک" کی کیٹیگری متعارف کروائی تھی۔
بولات نے یہ نہیں بتایا کہ آیا انقرہ نے اس پیش کش کو قبول کیا ہے۔
ایردوان کی حکمراں اے کے پارٹی کے ایک عہدیدار نے رواں ماہ رائٹرز کو بتایا کہ جب کہ اس تجویز پر کازان میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا، پارٹنر ملک کا درجہ ترکی کے رکنیت کے مطالبات سے کم ہوگا۔
پاکستان بھی برکس میں شمولیت کا خواہش مند ہے
اسلام آباد برکس فورم میں رکنیت کا بھی خواہاں ہے۔گزشتہ کچھ دہائیوں میں ابھرنے والی شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن اور برکس تنظیمیں چین، بھارت اور روس سمیت دنیا کی چالیس فیصد سے زیادہ آبادی اور متعدد بڑی معیشتوں پر مشتمل ہیں جو رکن ملکوں کے مطابق ممکنہ طور پر امن اور سلامتی کے حصول اور تجارت کے فروغ کی جانب اہم پلیٹ فارمز کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
تاہم، مبصرین کا کہنا ہے کہ ان فورمز پر فعال کردار ادار کرنے اور ان کے ذریعہ تعاون سے مستفید ہونے کے لیے اسلام آباد کو امریکی تعاون کے ذریعہ آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے حصول کے بعد نہ صرف سیاسی استحکام، حکومتی عمل داری اور جاندار معاشی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے اپنی خارجہ پالیسی کے امور کو بھی کہیں بہتر انداز میں چلانا ہوگا۔
اس تناظر میں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان کےسابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو سب سے پہلے اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، " اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اندرونی سیاسی استحکام، دوررس نتائج کی خارجہ پالیسی، حکومتی عملداری اور مضبوط اقتصادی ٖپالیسی کے فیصلے کرنا ہوں گے۔"
طویل عرصے تک بطور سفارت کار خدمات انجام دینے والے تجزیہ کار شمشاد خان نے نوٹ کیا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اپنے محل وقوع کی وجہ سے اہم اسٹریٹجگ اہمیت ہے اور تجارت اور اقتصادی تعاون کے لیے ایک گڑھ بن سکتا ہے لیکن اس کے موجودہ مسائل پر قابو پائے بغیر بین الاقوامی یا علاقائی تعاون سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ۔
ماہر معاشیات اور قانون دان اکرام الحق کہتے ہیں کہ پاکستان ایس سی اور برکس جیسی تنظیموں کے ذریعہ فائدہ اسی صورت میں اٹھا سکتا ہے جبکہ اس کے خطے میں تعلقات بہتر ہوں اور ملک میں دیرپا سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کی جائیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مثال کے طور پر پاکستان کے اس وقت بھارت سے تعلقات خراب ہیں جبکہ ایران اور افغانستان سے بھی تعلقات تسلی بخش نہیں ہیں۔
"ایسے میں آپ علاقائی تعاون سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کو خطے میں تجارتی روابط اور راہداریاں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔"
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چین اور روس کے زیر سایہ فعال ایس سی او اور برکس تنظیمیں عالمی امور میں امریکی قیادت کے مقابل ایک متبادل نظام پیش کرنے کی کوشش کو ظاہر کرتی ہیں ۔
شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ ایس سی او اور برکس اس وقت امریکہ کی عالمی قیادت کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہیں اگرچہ امریکہ اس وقت مشرق وسطی اور یوکرین میں دو بڑی جنگوں سے نمٹ رہا ہے۔
اس رپورٹ میں کچھ اطلاعات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔
فورم