ان دنوں لندن کے برٹش میوزیم میں جنوبی افریقہ کا صحرائی رنگ نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔ چھ ماہ کے لیے لگائی جانے والی اس نمائش میں میوزیم کے باہر جنوبی افریقہ کی تہذیب کے رنگ نمایاں کرنے کے لیے وہاں سے خصوصی طور پر پودے، پھول اور درخت منگوائے گئے ہیں۔
لندن کے برٹش میوزیم میں یہ جنوبی افریقہ کے صحرا کا منظر پیش کرنے کے لیےکیوبٹانیکل گارڈنز کے تعاون سے دو ایئرکنڈیشنڈ کنٹینروں میں پھول اور درخت لا کر ااس نمائش میں رکھے گئے ہیں۔
پھولوں اور درختوں کو دوبارہ یہاں لگانے کے عمل میں تقریبا ایک ماہ کا عرصہ لگا۔ کیونکہ برطانیہ میں اپریل کے مہینے میں ٹھنڈ بلکہ برفباری کا بھی خدشہ تھا۔ لہذا چند درختوں کو بچانے کی خاطر انہیں لپیٹ دیا گیا تھا۔ اور ایک ماہ بعد یہ درخت برطانوی آب و ہوا میں سرسبز و شاداب ہو گئے۔
اس عجائب گھر کو پسند کرنے والوں میں ایک 71سالہ خاتون میری بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنا بچپن جنوبی افریقہ میں گذرا تھا ۔ وہ کہتی ہیں کہ جن پھولوں کے ساتھ میرا بچپن بیتا تھا ، انہیں یہاں آکر دوبارہ دیکھنا بہت اچھا لگا۔
نمائش میں کئی اقسام کے پھول دار پودے اور درخت بھی رکھے گئے ہیں اور کئی سیاحوں کا کہناتھا کہ انہیں یہاں آکر ایسا لگا کہ صحرائی علاقے کے کسی نخلستان میں گھوم رہے ہو ں۔
جنوبی افریقہ میں پتھر پر کی جانے والی کندہ کاری کے نمونے بھی اس نمائش میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ یہ کندہ کاری جنوبی افریقہ میں بسنے والے سام قبیلے کے لوگوں کی تھی جو بیس ہزار سال تک جنوبی افریقہ میں رہے۔
برٹش میوزیم میں افریقی شعبے کے منتظم کرس سپرنگر کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق پراسرار ماضی سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ یہ نمونے اصلی جانوروں کے ہی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سام قبیلے کے لوگوں کے تخیلاتی جانور ہوں۔
اس باغ کا ایک گوشہ جنوبی افریقہ کے ان پودوں کے نام منسوب کیا گیا ہے جن کے معدوم ہوجانے کا خدشہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں نباتات و حیوانات کو لاحق خطرے کی نشاندہی کرنا بھی اس نمائش کا ایک مقصد ہے۔
جنوبی افریقہ کے پاس دنیا کی خشکی کا کل دو فیصد حصہ ہے جبکہ وہاں نباتات کی شرح دس فیصد ہے۔
منتظمین کا کہناہے کہ عجائب گھر آنے والے تقریبا 30 لاکھ افراد کو برطانیہ میں افریقہ کے یہ رنگ دیکھنے کا موقع ملے گا۔