اسلام آباد میں جون کی شدید گرمی میں جمعے کی سہہ پہر میں جب بجٹ کا اجلاس شروع ہوا تھا، تو سیاست میں بھی باہر کے موسم کی طرح پارہ چڑھا ہوا تھا اور بظاہر محسوس ہو رہا تھا کہ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف بھی بھر پور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
جون میں چلنی والی لو کے تھپیڑے برداشت کرنے کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر داخل ہوا تو ٹھنڈی ہواؤں نے استقبال کیا۔
قومی اسمبلی کی راہداریوں سے ہوتا ہوا جب مرکزی ہال تک رسائی حاصل ہوئی تو وہاں معمول کی نسبت قدرے زیادہ رش تھا۔
ویسے تو پاکستان کے تمام علاقوں میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اور پاکستان کے ایوانِ زیریں میں بھی دھواں دار تقاریر اردو زبان میں ہوتی ہیں۔ البتہ اس ایوان میں پورے ملک سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے آتے ہیں۔
اس لیے پارلیمنٹ کی راہدایوں میں گھومتے ہوئے سرائیکی، سندھی، پنچابی، بلوچی، پشتو اور اردو بولنے والے افراد کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔
انگریزی ویسے تو ہم سب شوق اور فخر سے بولتے ہیں لیکن عموماً اراکین پارلیمنٹ آپس میں گفتگو انگریزی میں کم ہی کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کے روایتی شور شرابے اور احتجاج میں اپنا تیسرا بجٹ پیش کر رہی تھی۔ اس مرتبہ یہ مشکل ذمہ داری معروف بینکر شوکت ترین کے کندھے پر آن پڑی تھی جنہیں رواں سال اپریل کے آخر میں وزارتِ خزانہ کا قلم دان سونپا گیا تھا۔
شوکت ترین روایتی سیاست دان نہیں ہیں اور وہ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوتے آئے ہیں یعنی ان کا کوئی حلقۂ انتخاب نہیں ہے۔
اس سے پہلے شوکت ترین پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی مشیرِ خزانہ رہے۔ البتہ وزیر کی حیثیت سے بجٹ تقریر وہ پہلی مرتبہ کر رہے تھے۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن سرکاری زبان یعنی جس زبان میں سرکاری محکموں کے مابین رابطہ ہوتا ہے، وہ اردو نہیں انگریزی ہے۔
اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ -- ساری جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
شوکت ترین نے دھواں دھار تقریر بھی اسی زبان میں کرنی تھی جس کی دھوم بقول داغ سارے جہاں میں ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان اسمبلی کے اجلاس میں کم ہی آتے ہیں۔ اگر کبھی آتے بھی ہیں تو زیادہ وقت اپنے چیمبر میں ہی گزارتے ہیں۔
تاہم بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے وزیرِ اعظم اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی اسمبلی ہال میں موجود تھے۔
ایسے میں وہاں موجود حکومتی اور اتحادی اراکین نے موقعۂ غنیمت جانا اور وزیرِ اعظم عمران خان کے گرد بھیڑ لگا دی۔
کسی کو وزیرِ اعظم سے فائل پر دستخط کرانے تھے تو کسی نے فوٹو بنوانا تھی۔ تو کسی رکن کو مشاورت کرنی تھی۔
اراکین اسمبلی عمران خان کے گرد سے نہ ہٹے تو اسپیکر کو اراکین سے کہنا پڑا کہ وہ اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں۔
حکومتی بینچوں کی اول نشستوں پر وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، پرویز خٹک، شبلی فراز اور شفقت محمود براجمان تھے۔
وزیرِ خزانہ شوکت ترین اپوزیشن کے بھر پور احتجاج میں مشکل اردو میں لکھی گئی بجٹ تقریر پڑھتے ہوئے خاصے پریشان دکھائی دیے۔
شوکت ترین نے اپنی تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو ایک ساتھ اپوزیشن لابی سے ایوان میں داخل ہوئے تو حزب اختلاف کے اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔
شوکت ترین نے بجٹ تقریر کا ابھی آغاز ہی کیا تھا کہ انہیں یہ سمجھنے میں مشکل پیش آئی کہ ڈیسک کیوں بجائے جا رہے ہیں۔ جب کہ ابھی تو کوئی ایسی بات کہی ہی نہیں ہے۔
اپوزیشن بینچوں کے ڈیسک بجانے سے پریشان شوکت ترین کی اس الجھن کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے ساتھی وزیر شفقت محمود نے انہیں کانوں میں ہیڈ فون لگانے کا مشورہ دیا۔ تو وزیرِ خزانہ کے لیے تقریر کرنے میں کچھ آسانی ہوئی۔ البتہ بجٹ تقریر میں شامل اردو کے مشکل الفاظ نے انہیں اختتام تک پریشان رکھا۔
وزیرِ اعظم عمران خان سمیت متعدد وفاقی وزرا اور حکومتی اراکین نے بھی وزیرِ خزانہ کی بجٹ تقریر سننے کے لیے ہیڈ فون کا سہارا لیا۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کے اراکین مسلسل نعرے بازی کرتے رہے اور وقتا فوقتاً حکومتی اراکین ڈیسک بجا کر وزیرِ خزانہ کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
اپوزیشن کے اراکین نے پوسٹر بھی اٹھا رکھے تھے جن پر حکومت کی پالیسیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔
اپوزیشن کے نعروں ‘گو نیازی گو’ کی گونج میں وزیرِ خزانہ اردگرد کے حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف تقریر پڑھتے رہے اور حکومت کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے معیشت کے اعداد و شمار بتاتے رہے۔
کتبے اٹھائے، نعرے بازی کرتے حزب، اختلاف کے اراکین کو غالباً یہ خیال آیا کہ سرکاری ٹی وی سے نشر ہونے والی بجٹ اجلاس کی کارروائی میں ویڈیو کیمرے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف حکومتی بینچوں کو ہی دکھا رہے ہیں۔
اسی خیال کے تحت اپوزیشن کی خواتین اراکین پوسٹر اٹھائے حکومتی بینچوں کے پیچھے پہنچ گئی جہاں نا مناسب صورتِ حال اس وقت پیدا ہوئی جب حکومتی خواتین ارکان نے اپوزیشن کی اراکین سے پوسٹر چھیننے کی کوشش کی۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین زیادہ وقت کھڑے رہے اور شور مچاتے رہے۔ شہباز شریف بھی اراکین کا ساتھ دینے کے لیے کبھی کھڑے ہوتے اور کبھی بیٹھ جاتے۔
مشکل اردو میں لکھی گئی بجٹ تقریر کی تحریر سے پریشان شوکت ترین نے اپوزیشن کے بھر پور احتجاج میں ’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘ کے ادھورے شعر پر تقریر ختم کی۔
کرونا وبا کے باعث مہمانوں کی گیلری میں بھی کم تعداد موجود تھی جب کہ پریس گیلری میں بھی سارجنٹ فاصلے سے بیٹھنے کی تاکید کرتے رہے۔