حلقہ این اے 246 میں انتخابی سرگرمیوں کا منگل کو آخری دن تھا۔ ان سرگرمیاں سے حلقے کا ہی نہیں پورے شہر کا سیاسی ماحول گرم رہا جبکہ حلقے کے تحت آنے والے 2 درجن سے زائد علاقوں میں انتخابی سرگرمیوں نے مسلسل کئی ہفتوں تک رونقیں بحال رکھیں۔
حلقے میں کئی اہم تجارتی مراکز اور مارکیٹیں واقع ہیں جبکہ حسین آباد کے نام سے سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ بھی یہیں واقع ہے جہاں کے تاجروں کا کاروبار چمک اٹھا ہے۔ علاقے کے رہائشیوں کے علاوہ گلشن اقبال، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد سے بھی لوگ بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کررہے ہیں۔
پہلے یہ اسٹریٹ رات بارہ، ایک بجے تک کھلی رہتی تھی مگر انتخابی سرگرمیوں کی وجہ سے اب یہاں تقریباً رات بھر ہی چہل پہل رہتی ہے۔صرف رواں ہفتے کو ہی نظر میں رکھیں تو جمعہ ،ہفتہ اور اتوار۔۔یہ ایسے دن تھے جبکہ چاروں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جلسے منعقد کئے۔ ان جلسوں میں ریکارڈ توڑ لوگوں نے شرکت کی اور یوں لگتا تھا جیسے سارا کا سارا شہر یہیں امڈ آیا ہے۔
جلسہ شام کے اوقات میں شروع ہونا تھا، جبکہ سرشام ہی کارکنوں اور عام لوگوں نے علاقے میں پہنچنا شروع کردیا تھا۔ بے شمار لوگوں نے یہ سوچ کر کہ جانے جلسہ رات میں کب ختم ہو ۔۔حسین آباد فوڈ اسٹریٹ کارخ کیا جبکہ انگنت لوگوں نے جلسے سے نمٹ کر کھانا کھایا اور یوں ساری رات ہی یہاں کی فضاء کھانے کی خوشبووٴں سے مہکتی رہی۔
وی او اے کے نمائندے نے زیرنظر رپورٹ کی غرض سے علاقے کادورہ کیا تو اسے سب سے زیادہ رش بار بی کیو ہوٹلز پر نظر آیا۔ ایک دکاندارحاجی بسم اللہ خاں نے بتایا، ’کباب، پراٹھا، چکن تکہ، ملائی بوٹی، ریشمی کباب، کباب رول، بہاری بوٹی، بہاری کباب اور سیخ کباب کی ڈیمانڈ زیادہ رہی۔‘
فوڈ اسٹریٹ پر ہوٹل مالکان ضمنی انتخاب کو ’رحمت‘ قرار دے رہے ہیں۔ ایک اور دکاندار نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے کچھ ماہ سے کاروبار میں مندی تھی۔ لیکن اب ضمنی انتخاب کی سرگرمیوں نے کاروبارمیں نئی جان ڈال دی ہے۔‘
فوڈ اسٹریٹ اپنی ویرائٹیز کی وجہ سے بھی لوگوں میں بہت مشہور ہے۔ کھانے کے شوقین اور گاہے بگاہے یہاں کا رخ کرنے والے ایک نوجوان محمد مبشر نے وی او اے کو بتایا ’یہاں کا فالودہ، گولہ گنڈا، آئس کریم، سردیوں میں چکن کارن سوپ، چرغہ اور سب سے بڑھ کر ’میٹھا پان‘ بھی سارے شہر میں مشہور ہے۔۔۔کبھی فرصت ملے تو آپ بھی فیملی کے ساتھ ٹرائی کریں۔۔‘
’انتخابی مہم تو ختم ہوئی، جمعرات کو یہاں پولنگ کا عمل بھی مکمل ہوجائے گا ۔۔۔اب فوڈ اسٹریٹ کی رونقوں کا کیا ہوگا۔۔کیا انہی جیسی رونقوں کے لئے 2018ء کے انتخابات تک انتظار کرنا پڑے گا۔۔‘ یہ وہ خیال ہے جو فوڈ اسٹریٹ کے دکانداروں اور ہوٹلز مالکان کوافسردہ کئے ہوئے ہے۔ بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ جتنی سیاسی گہماگہمیاں اس بار تھیں وہ پہلے کبھی عام انتخابات کے موقع پر بھی دیکھنے کو نہیں ملیں، اس لئے شاید یہ موقع سالہا سال بعد دوبارہ دیکھنے کو ملے۔