رسائی کے لنکس

افغانستان کے ساتھ تجارتی لین دین کی نئی امریکی پالیسی، تاجروں کے لیے امید کی کرن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ماہر معاشیات اورافغان تاجر برادری نے امریکی حکومت کے افغانستان کے ساتھ تجارتی لین دین کی اجازت دینے سے متعلق نئی پالیسی کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے۔ نئی امریکی پالیسی کے تحت اب انسانی بنیادوں اور امدادی سرگرمیوں کے لیے افغانستان میں رقم منتقل کرنے کی اجازت ہو گی۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے 'جنرل لائسنس' کے نام سے جانی جانے والی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان پر پابندیاں برقرار رہیں گی لیکن نئی پالیسی انسانی امداد اور تجارتی سرگرمیوں میں آسانی پیدا کرے گی۔

نئی امریکی پالیسی سے ذاتی اور تجارتی بینکنگ، انفرااسٹرکچر کی ترقی، تجارت، نقل و حمل کے نظام کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے آپریشنز، ٹیلی کمیونی کیشن اور معلوماتی لین دین کے شعبوں کو فائدہ ہو گا۔

امریکی وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ یہ اقدامات نجی کمپنیوں اور امدادی تنظیموں کو افغان حکومت کے اداروں کے ساتھ کام کرنے، کسٹم، ڈیوٹی، فیس اور ٹیکس ادا کرنے میں سہولت فراہم کریں گے۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر ذلاکت خان کے مطابق افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے، بینکنگ کا نظام درہم برہم ہے اور حکومتی عہدایداروں کی تنخواہیں مسلسل بند ہیں۔لیکن امریکی اقدام کے بعد اب توقع ہے کہ ایسے تمام ادارے جو افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنے کے خواہش مند تھے انہیں اب آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ذلاکت خان نے کہا کہ افغانستان میں بینکنگ چینل کے غیر فعال ہونے کے باعث عالمی ادارے اپنا عملی کردار ادانہیں کر سکتے تھے، لیکن اب عالمی اداروں سمیت افغانستان کے کاروباری حضرات کاروباری لین دین کو بینکنگ کے ذریعے دوبارہ فعال کر سکیں گے۔

معاشی ماہر کے مطابق افغانستان کے ساتھ تجارتی لین دین کی امریکی اجازت ملک کی اقتصادی حالت کی بہتری کی جانب پہلا قدم ہے۔ ان کے بقول جنرل لائسنس کے بعد بینکنگ سیکٹر کے فعال ہونے سے ڈونر حضرات افغانستان کی ترقی اور بحالی نو میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔

'نئی پالیسی کی مزید واضح ہو گی تو لین دین شروع کر دیں گے'

گزشتہ ماہ اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے افغانستان کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے 4 ارب 40 کروڑ ڈالر کی امداد کی اپیل کی تھی۔اقوامِ متحدہ کے مطابق افغانستان کو ایک تباہ کن انسانی بحران کا سامنا ہے اور ملک کی نصف سے زائد آبادی خوراک کی قلت کا شکار ہے۔

گزشتہ ماہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہ بیجنگ کے بعد جاری ہونے والے پاک – چین مشترکہ بیان میں بین الاقوامی برادری پر افغانستان کے مالیاتی اثاثوں کو غیر منجمد کرنے اور مدد کی فراہمی پر زور دیا گیا تھا۔

اسماعیل شنواری کا خاندان گزشتہ 40 سال سے افغانستان کے ساتھ درآمدات و برآمدات کے شعبے سے منسلک ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ امریکی وزیرخارجہ کے نئی تجارتی حکمتِ عملی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

اسماعیل نے بتایا کہ بینکنگ پر پابندی کے باعث انہیں تجاری امور کو جاری رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے بقول وہ امید کرتے ہیں کہ جب جنرل لائسنس کی پالیسی مزید واضح ہو جائے گی تو دیگر تاجروں کی طرح وہ بھی افغانستان کے ساتھ تجارتی لین دن بینکنگ کے ذریعے شروع کر دیں گے۔

کابل میں مقیم پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نقیب اللہ سافی کہتے ہیں 15 اگست کے بعد جب بینک کے ذریعے لین دین کی پابندی عائد ہوئی تو اس سے افغانستان کی ٹریڈ اور ٹرانسٹ کو شدید دھچکا لگا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل افغانی کرنسی ایک ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 85 افغانی کے قریب تھی جو کہ حالیہ دنوں میں 104 تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم وہ اب پرامید ہیں کہ عالمی برادری کے ساتھ بینکنگ کا شعبہ کھلنے کے بعد نہ صرف تجارت بلکہ افغانی کرنسی بھی مستحکم ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG