پاکستان میں قومی اسمبلی کے آٹھ اور صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں میں ضمنی انتخابات کے لیے اتوار کو پولنگ ہو رہی ہے۔سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں کامیابی کے دعوے کر رہی ہیں۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج ملکی سیاست پر اثرانداز ہوں گے۔
خیبرپختونخوا اور پنجاب میں قومی اسمبلی کی تین، تین جب کہ سندھ میں دو نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں، پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ بھی اتوار کو ہی ہو رہی ہے۔
قومی اسمبلی کی یہ نشستیں تحریکِ انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہونے کے بعد خالی ہوئی تھیں۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے، جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان بیک وقت آٹھ نشستوں سے پاکستان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار ہیں۔ اس سے قبل سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، بینظیر بھٹو، شہباز شریف اور مخدوم جاوید ہاشمی سمیت دیگر سیاست دان بھی ایک سے زائد نشستوں سے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔
بعض حلقوں میں عمران خان نے خود انتخابی جلسوں سے خطاب کیا، تاہم کچھ حلقوں میں پی ٹی آئی کے مقامی عہدے دار وں نے اپنے سربراہ کی انتخابی مہم چلائی۔
جن حلقوں میں اتوار کو پولنگ ہو رہی ہے، ان میں این اے 22 مردان، این اے 24 چارسدہ، این اے 31 پشاور، این اے 108 فیصل آباد، این اے 118 ننکانہ صاحب، این اے 237 ملیر کراچی اور این اے 239 کورنگی کراچی شامل ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کراچی کے حلقے این اے 246 میں تحریکِ انصاف کے رُکن قومی اسمبلی شکور شاد کی درخواست پر ضمنی الیکشن کرانے کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا تھا۔
کون کون مدِمقابل ہے؟
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق این اے 22 مردان میں عمران خان کا اصل مقابلہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا قاسم اور جماعتِ اسلامی کے عبدالواسع سے ہو گا۔ یہ نشست پی ٹی آئی کے علی محمد خان کا استعفیٰ منظور ہونے پر خالی ہوئی تھی۔
این اے 24 چارسدہ کی نشست پر عمران خان کے مدِ مقابل نمایاں اُمیدواروں میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ایمل ولی خان اور جماعتِ اسلامی کے مجیب الرحمان ہیں۔ یہ نشست تحریکِ انصاف کے رُکن اسمبلی فضل محمد کے استعفے کے بعد خالی ہوئی تھی۔
این اے 31 پشاور میں عمران خان کا مقابلہ اے این پی کے سینئر رہنما غلام احمد بلور سے ہو گا۔ دونوں اُمیدوار اس سے قبل 2013 کے عام انتخابات میں بھی آمنے سامنے آئے تھے، جس میں غلام احمد بلور کو شکست ہوئی تھی۔ سیاسی ماہرین اس نشست پر اس بار کانٹے کے مقابلے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔
این اے 108 فیصل آباد میں عمران خان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار عابد شیر علی کے ساتھ ہو گا۔ یہ نشست تحریکِ انصاف کے رہنما فرخ حبیب کے استعفے سے خالی ہوئی تھی۔
این اے 157 ملتان کی نشست پر بھی کانٹے کا مقابلہ ہے، جہاں پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو قریشی کا مقابلہ حکمراں اتحاد کے مشترکہ اُمیدوار علی موسٰی گیلانی سے ہو گا۔
علی موسیٰ گیلانی سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے ہیں۔ یہ نشست تحریکِ انصاف کے زین قریشی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے باعث خالی ہوئی تھی۔
کراچی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے راجہ محمد ثاقب کے مطابق این اے 239 میں کل 22 اُمیدوار میدان میں ہیں۔
عمران خان کے خلاف اس حلقے سے الیکشن لڑنے والے نمایاں اُمیدواروں میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے نیئر رضا، تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے محمد یاسین، مہاجر قومی موومنٹ کے خرم منصور، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے عمران حیدر عابدی، پاک سرزمین پارٹی ( پی ایس پی) کے شارق جمیل شامل ہیں۔
ین اے 237 ملیر میں ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ، پاک سر زمین پارٹی کے محمد عامر شیخانی، ٹی ایل پی کے سمیع اللہ خان سمیت 11 امیدوار مد مقابل ہیں۔ حلقے میں کل 194 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔
ضمنی انتخابات کے موقع پر کراچی پولیس کی پانچ ہزار سے زائد نفری سیکیورٹی پر مامور ہوگی۔ پولیس حکام کے مطابق ملیر میں 1 ہزار 669 افسر و اہلکار ڈیوٹی کریں گے جب کہ ضلع کورنگی میں 2 ہزار 780 افسران و اہلکار فرائض انجام دیں گے۔
سیکیورٹی پر 103 خواتین پولیس اہلکار بھی تعینات ہوں گی۔ سی آئی اے اور اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) کے 554 اہلکار بھی سیکیورٹی پر ہوں گے۔
خیال رہے کہ عمران خان نے کامیابی کی صورت میں قومی اسمبلی کی رُکنیت کا حلف نہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ان حلقوں میں حکمراں اتحاد کے اُمیدواروں کی کامیابی سے اسے سیاسی فائدہ ہو گا اور اگر تحریکِ انصاف ان ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو عمران خان اسے اپنے بیانیے کی فتح قرار دیں گے۔
اس سے قبل جولائی میں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف نے 15 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کامیابی سے نہ صرف پی ٹی آئی نے پنجاب حکومت بنالی تھی، بلکہ عمران خان نے اسے اپنے بیانیے کی فتح قرار دیا تھا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتحار احمد کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف اگر یہ نشستیں جیت بھی جاتی ہے تو پارلیمان میں اس کی نشستوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔ کیوں کہ یہ نشستیں تحریکِ انصاف کی ہی تھیں۔ لیکن اگر حکمراں اتحاد کا اُمیدوار کامیاب ہوتا ہے، تو قومی اسمبلی میں ان کی عددی اکثریت میں اضافہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتحار احمد کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان یہ ضمنی الیکشن جیت بھی جاتے ہیں تو پھر بھی اُن کا اعلان کردہ لانگ مارچ کامیاب نہیں ہو گا، کیوں کہ حکومت نے اسے روکنے کے لیے پوری تیاری کر رکھی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کہتے ہیں کہ یہ انتخابات جولائی میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے مماثلت رکھتے ہیں، کیوں کہ یہ بھی وہ نشستیں ہیں، جو تحریکِ انصاف نے جیتی تھیں۔ لہذٰا زیادہ امکان یہی ہے کہ تحریکِ انصاف ان میں سے زیادہ تر نشستیں جیت جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ وہ نشستیں ہیں جن پر تحریکِ انصاف کے اراکین معمولی برتری سے جیتے تھے۔ لہذٰا حکمراں اتحاد نے چن کر یہ حلقے ضمنی الیکشن کے لیے منتخب کیے۔
احمد ولید کے مطابق یہ انتخابات عمران خان کے لیے بڑا امتحان ہیں، کیوں کہ اگر وہ ان انتخابات میں جیت جاتے ہیں تو وہ اپنے دعوے پر اُتریں گے کہ وہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں، بصورتِ دیگر شکست اُن کے لیے بڑا دھچکہ ہو گی۔