بھارت کے وزیرِخارجہ ایس جے شنکر نے وزیرِاعظم نریندر مودی کے گجرات فسادات میں مبینہ کردار کے گرد گھومتی برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی ڈاکیومینٹری کو سیاست زدہ قرار دیا ہے۔
حال ہی میں ریلیز ہونے والی اس ڈاکیومینٹری نے بھارت میں ہلچل مچا دی ہے جب کہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے بھارت اور برطانیہ کے تعلقات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
بھارتی وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ جس موقع پر اس ڈاکیومینٹری کو ریلیز کیا گیا وہ محض اتفاق نہیں ہے۔
انہوں نے بھارت کی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے اندر اور باہر ایسی سیاسی طاقتیں ہیں جنہوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیا ہے۔بعض سیاسی طاقتیں اپنی سیاسی لڑائی لڑنے کے لیے مغربی میڈیا کے بھارت مخالف بیانیے کا استعمال کر رہی ہیں۔
ایس جے شنکر نے خبر رساں ادارے 'اے این آئی' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے سوال کیا کہ آپ بھارت، یہاں کی حکومت، بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور وزیراعظم کو انتہا پسند کے طور پر کیسے پیش کر سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ بی بی سی نے گجرات فسادات پر دو حصوں میں بنائی گئی دستاویزی فلم 'انڈیا دی مودی کوئسچن' میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو جو اس وقت گجرات کے وزیرِاعلیٰ تھے، براہ راست ذمے دار قرار دیا ہے۔ ڈاکیومینٹری میں کہا گیا ہے کہ وہ تشدد کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
بھارت کی ریاست گجرات میں 27 فروری 2002 کو گودھرا اسٹیشن پر سابر متی ایکسپریس کی آتش زدگی کے نتیجے میں ایودھیا سے واپس آنے والے 59 ہندو جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد پورے گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی جانے والی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں نریندر مودی کو کلین چٹ دی تھی اور کسی عدالت نے بھی انہیں قصور وار قرار نہیں دیا تھا۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم کے پہلے حصے کے جاری ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے سوشل میڈیا پر اسے دیکھنے پر پابندی عائد کردی تھی۔
حکمراں جماعت بی جے پی اور حکومت کی جانب سے اس دستاویزی فلم کی مخالفت کی گئی اور اسے بھارت اور وزیرِاعظم نریندر مودی کو بدنام کرنے کی مہم قرار دیا گیا۔
مرکزی وزیر قانون کرن رجیجونے ایک بیان میں کہا کہ کچھ لوگ بی بی سی کو بھارتی سپریم کورٹ سے بھی اوپر سمجھتے ہیں۔
مالی بدعنوانی پر نظر رکھنے والے بھارتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے اہلکاروں نے 14 فروری کو بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر کا سروے کیا جو تین روز تک جاری رہا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ای ڈی کی اس کارروائی کی مخالفت کی اور اسے سینسر شپ اور پریس کی آزادی کو سلب کرنے سے تعبیر کیا۔
سروے کے بعد ایک بیان میں ای ڈی نے کہا کہ بی بی سی کی جانب سے بین الاقوامی لین دین میں گڑبڑ پائی گئی ہے جب کہ بی بی سی نے کہا کہ وہ خوف اور تعصب کے بغیر اپنا کام کرتا رہے گا۔
'جب کوئی وزیرِ خارجہ بیان دے تو اس کی اہمیت ہوتی ہے'
بی بی سی کی دستاویزی فلم کے ریلیز ہونے کے بعد ہی حکومت اور حکمراں جماعت کی جانب سے ایسے بیانات آنے لگے تھے کہ یہ فلم بھارت کے اندرونی امور میں مداخلت ہے اور اس کا مقصد وزیر اعظم مودی کو بدنام کرنا اور بھارت اور برطانیہ کے باہمی رشتوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ متعدد سابق سفارت کاروں نے بھی ایسے ہی بیانات دیے تھے۔
اب ایس جے شنکر کے بیان کے بعد تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس دستاویزی فلم اور ای ڈی کی جانب سے بی بی سی کے سروے سے بھارت اور برطانیہ کے باہمی رشتے متاثر ہوں گے اور کیا بی بی سی دونوں کے تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’آبرزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ (او آر ایف) میں وزٹنگ فیلو رشید قدوائی کہتے ہیں کہ جب وزیر خارجہ کوئی بیان دیتے ہیں تو اس کی اہمیت ہوتی ہے اور عالمی سطح پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی بی سی کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور برطانیہ کے باہمی رشتوں کو کوئی میڈیا ہاؤس تباہ نہیں کر سکتا۔ دونوں میں حکومتی اور عوامی سطح پر تعلقات ہیں۔ ان پر ان سب باتوں کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اُنہوں نے وزیرِ خارجہ اور دوسرے رہنماؤں کے بیانات کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ آزادی کے بعد دونوں ملکوں کے رشتے مزید گہرے ہوئے ہیں اور رشتوں کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔
بعض سیاست دانوں کے اس الزام پر کہ مذکورہ دستاویزی فلم مغربی اور سامراجی ذہنیت کی سازش کا نتیجہ ہے اور اس کا مقصد بھارت کو بدنام کرنا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بی بی سی برطانوی حکومت اور وہاں کی سیاسی جماعتوں پر بھی تنقید کرتا رہا ہے۔
ان کے مطابق برطانیہ میں پریس کی آزادی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ای ڈی کی کارروائی کی مذمت کی جا رہی ہے۔
'حکومت اپنے خلاف ہر چیز کو سازش سمجھتی ہے'
جے شنکر نے اپنے انٹرویو میں 1984 میں بھارت میں ہونے والے سکھ مخالف تشدد کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا کہ اس معاملے پر ہمیں کوئی دستاویزی فلم دیکھنے کو کیوں نہیں ملی۔ اس پر رشید قدوائی کہتے ہیں کہ بی بی سی نے 1984 کے سکھ مخالف تشدد پر دستاویزی فلم بنائی تھی اور اس وقت کی حکومت پر شدید تنقید کی تھی۔
ان کے مطابق بی بی سی سے وابستہ مارک ٹلی اور ستیش جیکب نے ’امرتسر‘ نام کی ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی بی جے پی اور کانگریس مخالف جماعتوں نے زبردست پذیرائی کی تھی اور بار بار اس کا حوالہ دیا جاتا تھا۔
ان کے خیال میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور حکومت میں ہر معاملے میں غیر ملکی ہاتھ ہونے کی بات کہی جا رہی تھی۔ بالکل اسی طرح موجودہ حکومت ہر معاملے کو اپنے خلاف سازش بتانے لگتی ہے اورحکومت اور حکمراں جماعت کی جانب سے کہا جانے لگتا ہے کہ دنیا کے ممالک اور بڑے ادارے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سازش کرتے ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق حکومت ہر معاملے کو سازش سے جوڑنے کی جو بات کرتی ہے اس کا مقصد اپنے ووٹرز کو خوش اور مطمئن کرنا ہوتا ہے۔
سینئر صحافی اور روزنامہ ’دی ہندو‘ کے سابق ایڈیٹر این رام نے نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے لیے کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بی بی سی کے دفاتر پر سروے کا مقصد مودی حامیوں کے درمیان ان کے امیج کو بہتر بنانا تھا۔
برطانوی پارلیمنٹ میں 'بی بی سی' کی حمایت
دریں اثنا برطانوی حکومت نے منگل کو پارلیمان میں ہونے والی بحث کے دوران بی بی سی کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ اس کی ادارتی آزادی کی بڑی اہمیت ہے۔
بحث کے دوران متعدد ارکان پارلیمان نے بی بی سی کے سروے اور برطانوی حکومت کے رویے پر سوال اٹھایا تھا۔
قبل ازیں فلم ریلیز ہونے کے بعد ایک رکن پارلیمان نے اس معاملے کو برطانوی پارلیمان میں اٹھایا تھا اور نریندر مودی کے خلاف الزامات کا حوالہ دیا تھا جس پر وزیر اعظم رشی سونک نے کہا تھا کہ جو باتیں رکن پارلیمان نے کہی ہیں، حکومت اس سے متفق نہیں ہے۔
برطانیہ کے خارجہ، دولت مشترکہ اور ڈیولپمنٹ آفس کے لیے پارلیمانی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ اور حکمراں جماعت کے رکن پارلیمان ڈیوڈ روٹلے نے بحث کے دوران کہا کہ حکومت بی بی سی کو فنڈ دیتی ہے اور وہ اس کے ساتھ کھڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ پریس کی آزادی میں یقین رکھتا ہے اور اسے کلیدی حیثیت دیتا ہے۔ ہم بھارت سمیت دنیا کے دیگر ملکوں میں اپنے دوستوں کو اس آزادی کی اہمیت کو بتانا چاہتے ہیں۔