بھارت کی مرکزی حکومت کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج کو باضابطہ طور پر واپس بلانے اور عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن مکمل طور پر مقامی پولیس اور مرکزی ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے سپرد کرنے پر غور کر رہی ہے۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہری علاقوں میں علیحدگی پسندوں کے خلاف اس وقت فوج، مقامی پولیس اور مرکزی پولیس مشترکہ طور پر شورش مخالف کارروائیاں کر رہی ہیں البتہ سرحدی علاقوں میں اس طرح کی کارروائیوں میں فوج پیش پیش ہوتی ہے۔
سال 2005 کے بعد دارالحکومت سری نگر میں عسکریت پسندوں کےخلاف آپریشنز کی ذمے داری جموں و کشمیر پولیس اور سی آر پی ایف کی رہی ہے تاہم کئی موقعوں پر انہوں نے کارروائیوں کے دوران فوج کی مدد بھی حاصل کی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جموں و کشمیر میں حفاظتی صورتِ حال میں نمایاں بہتری اور عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں کمی کے بعد متعلقہ حکومتی ادارے سمجھتے ہیں کہ فوج کو شہری علاقوں سے ہٹا کر اسے سرحدوں پر تعینات کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
جی-20 اجلاس کی میزبانی اور حکومتی اقدامات
بھارت کی حکومت کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج واپس بلانے پر ایک ایسے موقع پر غور کر رہی ہے جب بھارت جی-20 کے سربراہان کے اجلاس کے انتظامات میں مصروف ہے۔
جی-20 دنیا کے بیس بڑے معاشی ممالک کی تنظیم ہے جس کے سربراہی اجلاس کی کئی تقریبات جموں و کشمیر میں ہوں گی۔
بھارت 1999 میں جی-ٹوئنٹی کے قیام سے ہی اس تنظیم کا رکن ہے اور اسے پہلی مرتبہ اس کے سربراہی اجلاس کی میزبانی ملی ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت جی-20 کی میزبانی کے دوران اس گروپ کے چند اہم اجلاس جموں و کشمیر میں منعقد کر کے دنیا کو سیاسی پیغام دینا چاہتا ہے جب کہ ان تقریبات کا جموں و کشمیر میں اہتمام سفارتی محاذ پر بھی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
بھارت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی تھی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور ان دونوں علاقوں جموں اور کشمیر کو براہِ راست وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقے قرار دیا گیا تھا۔ بعض مبصرین اسے متنازع علاقے کو ملک میں ضم کرنے کی طرف ایک اہم قدم قرار دیتے رہے ہیں۔
نامور صحافی اور تجزیہ کار ڈاکٹر ارون جوشی کہتے ہیں کہ بھارت کی حکومت جی-ٹوئنٹی مندوبین کی جموں و کشمیر میں آمد سے پہلے فوج کے قدموں کے نشان محدود کرنا چاہتی ہے اور اپنے اس دعوے کو بین الاقوامی سطح پر تقویت پہنچانا چاہتی ہے کہ اس علاقے میں صورتِ حال معمول کے مطابق ہے۔
بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے 21 فروری کو شائع ہونے والے شمارے کے اداریے میں کہا گیا تھا کہ جی-ٹوئنٹی پریذیڈنسی سال کے دوران جموں و کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج کو ہٹانے کا یہ عمل نئی دہلی کو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے 'دنیا کا سب سے برا فوجی علاقہ' ہونے کے بیان کا جواب دینے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
جہاں تک جموں و کشمیر کا انتخاب جی-ٹوئنٹی تقریبات کے لیے ایک مقام کے طور پر کرنے کا سوال ہے، تو مبصرین کہتے ہیں کہ بھارت دنیا پر یہ باورکرانا چاہتا ہے کہ جہاں پانچ اگست 2019 کے اقدامات اور فیصلوں سے تین دہائیوں سے جاری شورش کا خاتمہ ہوا، وہیں اب اس علاقے میں امن اور خوش حالی آ گئی ہے۔
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کہتے ہیں کہ جی-ٹوئنٹی اہم ممالک کا گروپ ہے جن میں سے چند ایک اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ہیں۔ بعض او آئی سی کے رکن ممالک ہیں۔ او آئی سی نے کشمیر پر ایک سخت مؤقف اختیار کیا ہوا ہے، اس لیے بھارت جی-ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے دوران اس کی تقریبات جموں و کشمیر میں منعقد کرکے بین الاقوامی سطح پر کشمیرپر اپنی پوزیشن کو تسلیم کرانا چاہتا ہے۔
فوج کے انخلا پر مشاورت جاری
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کرنے کے ساڑھے تین برس بعد فوج کو شہری علاقوں سے ہٹانے کا معاملہ اعلیٰ سطح پر زیرِ غور ہے۔
اس سلسلے میں حکومت مسلح افواج ، جموں و کشمیر پولیس اور وفاقی آرمڈ پولیس فورسز کے حکام کےساتھ ساتھ وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ کے عہدیداران سے مشاورت کر رہی ہے۔
سرکاری ذرائع سے میڈیا کو ملنے والی رپورٹس کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف مہم میں شامل فوج کو شہری علاقوں سے ہٹاکر حد بندی لائن پر تعینات کیا جائے گا۔
یہ بھی غور ہو رہا ہے کہ فوجی اہلکاروں کی جگہ امن و امان برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ انسدادِ بغاوت کے لیے آپریشن سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس کو مکمل طور پر سونپا دیا جائے گا۔
جموں و کشمیرمیں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 90-1989 میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو اسے کچلنے کے لیے بھارت نے اپنی فوج کےساتھ ساتھ نیم فوجی سرحدی حفاظتی دستے یا بی ایس ایف کو بھی ریاست کے شہری علاقوں میں تعینات کیا تھا۔
پاکستان اور بھارت میں تین مئی سے 26 جولائی 1999 کے درمیان لڑی جانے والی کرگل کی جنگ کے بعد بھارت کی پارلیمان نے بی ایس ایف کے اہلکاروں کو کشمیر میں شورش مخالف مہم سے واپس بلاکر سرحدوں پر دفاع کے لیے تعینات کیا ۔
امن و امان قائم اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے بی ایس ایف کی جگہ سی آر پی ایف کے اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ۔
بھارت کی فوج نے 1990 میں 'راشٹریہ رائفلز' کے نام سے ایک الگ شورش مخالف فورس قائم کی تھی۔
سرکاری طور پر فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں 'راشٹریہ رائفلز' کی 40 سے 45 ہزار اہلکار تعینات ہیں جب کہ پوری ریاست میں تعینات فوجی اہلکاروں کی کل تعداد ایک لاکھ 30 ہے جن میں سے اسی ہزار فوجی پاکستان کےساتھ ملنے والی سرحد پر ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اس وقت سی آر پی ایف کے 60 ہزار اہلکار بھی جموں و کشمیر میں تعینات ہیں، جن میں سے 45 ہزار کشمیر میں موجود ہیں جب کہ جموں و کشمیر پولیس کی افراد قوت لگ بھگ ایک لاکھ اہلکار ہے۔
بھارت کی حکومت کے ناقدین، بعض مقامی اپوزیشن جماعتیں او ر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جموں وکشمیر میں تعینات بھارتی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی مجموعی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔
کامیاب حکمتِ عملی
ڈاکٹر ارون جوشی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اگر فوج کو جموں و کشمیر کے شہری علاقوں سے واپس بلانے کا منصوبہ واقعی زیرِ غور ہے تو یہ فوجی اہمیت کی حامل کامیاب حکمتِ عملی ہو گی، جس کا ایک بڑا سیاسی فائدہ بھی ہوگا۔ گزشتہ 33 برس کے دوران فوج جموں و کشمیر پر بھارت کے اقتدارِ اعلیٰ کی ایک علامت بن گئی تھی۔ جموں و کشمیر میں تعینات ایک فوجی کو بھارت کا ایک نشان اور نمائندہ سمجھاجاتا تھا۔ اس طرح کے مناظر ایک جمہوریت بالخصوص جب ہم بھارت کو جمہوریت کی ماں کہتے ہیں، میں ٹھیک نہیں ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں جب عسکریت پسندی عروج پر تھی ۔ کوئی قابلِ اعتبارسرکاری نظام موجود نہیں تھا۔ پولیس کی گرفت کمزور تھی، تو اس صورتِ حال پر قابو پانے اورعسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج کو بلانا ناگزیر تھا۔
ان کے مطابق1996 میں عام انتخابات کے باوجود اس کے بعد بھی خلا کو پر نہیں کیا گیا اور نہ شہری علاقوں میں فوج کے قدموں کے نشان کم کیےگئے۔ فوج کو شہری علاقوں سے واپس بلانے کا یہ مناسب وقت ہے۔
ارون جوشی کایہ بھی کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں فوج کی موجودگی ایک متنازع مسئلہ بھی بن گئی ہے۔فوج کم کرنا بین الاقوامی سطح پر بھارت کے تشخص کے لیے بہتر ہے۔
’حالات بہتر ہوئے ہیں تو فوج شہری علاقوں میں کیوں تعینات ہے؟‘
جموں وکشمیر کے شہری علاقوں سے فوج کو واپس بلانے کے حکومت کے زیرِِ غور منصوبے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ اگر حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے کہ سیکیورٹی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے تو شہری علاقوں میں فوج اور دوسرے سیکیورٹی اہلکار اس قدر بڑی تعداد میں تعینات کرنے کا کیا جواز ہے؟
تاہم سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے مؤقف کا اعادہ کیا کہ جموں وکشمیر کے مسئلے کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلے کے حل کے لیے بھارت کو پاکستان کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کو بحال کرنا چاہیے۔
با وردی افراد کی موجودگی کا شہریوں کی نفسیات پر اثر
سری نگر کے ایک شہری عبدالمجید نجار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میں 1982 میں پیدا ہوا تھا ۔ جب سے ہوش سنبھالا ہر طرف وردی پوش افراد کو (تعینات)دیکھ رہا ہوں ۔ اس سےایک عجیب نفسیاتی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اگر حالات ٹھیک ہوئے ہیں جیساکہ حکومت کا دعویٰ ہے تو اس صورتِ حال کو بدلنے کی بھی تو ضرورت ہے۔
بارہ مولہ کے ایک تاجر حفیظ اللہ کا کہنا تھا کہ اگر فوج کو واپس بیرکوں میں بلایا جاتا ہے تو اس سے کم از کم ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ ہم ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب ہونے کی وجہ ہے فوجی تنصیات شہری آبادی کے قریب ہیں۔
کئی اعلیٰ فوجی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج عسکریت پسندوں کی کمر توڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اب جموں و کشمیر میں حل طلب مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت کی طرف سے ایک سیاسی پہل کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارتی اخبار ' انڈین ایکسپریس' کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں لداخ میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان محاذ آرائی کے بعد سے بھارتی فوج لائن آف ایکچوئل کنٹرول (بھارت۔چین سرحد) پر اہلکاروں کی ضرورت کے پیشِ نظر پاکستان کے ساتھ ملنے والی حد بندی لائن (ایل او سی) پر تعیناتی کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اداریے میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں تعینات فوج کی عسکریت مخالف' راشٹریہ رائفلز' کی کچھ نفری کو کشمیرسے ہٹاکر بھارت اور چین کی سرحد پر تعینات کیا جا چکا ہے۔
اخبار کے مطابق فروری 2021 میں جموں و کشمیر میں پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر فائر بندی کے سمجھوتے کی تجدید سے بھارتی فوج کو فائدہ پہنچا ہے البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ صورتِ حال کب تک برقرار رہے گی۔