مطیع اللہ عابد نور، نور زاہد
چند برس قبل تک افغانوں کے لیے کرکٹ کا کھیل نیا تھا۔ تاہم، کرکٹ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، کھیلوں کی دنیا کےماہرین کو توقع ہو چلی ہے کہ یہ کھیل ایک طاقتور ذریعہ ہے، جسے فروغ دے کر نوجوان نسل کو دہشت گردی اور بربادی کی راہ سے دور رکھا جا سکتا ہے۔
افغان شائقین نہیں بھولے کہ 30 اکتوبر، 2015ء کو اُن کی قومی کرکٹ ٹیم زمبابوے کو شکست دے کر فاتحانہ انداز سے کابل پہنچی تھی، جب ٹیم کی آمد پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اُس کا والہانہ خیرمقدم کیا تھا۔
مشرقی افغان صوبے میں کئی والدین داعش اور طالبان کی بغاوت سے سخت نالاں ہیں۔ حاجی دائود کو اس بات کی پریشانی لاحق رہی ہے کہ انتہاپسند اثرات کا سایہ کہیں اُن کے نوجوان بیٹوں پر پڑے۔
دائود جلال آباد کے ایک کاروباری شخص ہیں۔ اُن کے 14 اور 16 برس کے دو بیٹے ہیں۔ بقول اُن کے، 'میرے بیٹے اپنے موبائل فونز پر طالبان اور داعش کے وڈیوز دیکھا کرتے تھے، جن پر باغیانہ گروہوں کے اثرات پڑنے کا ہمیشہ خدشہ لاحق رہتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں سے سنا کرتے تھے کہ باغی گروہوں میں شامل ہونا چاہیئے'۔
تاہم، کھیل میں قومی فتح نے ملک پر ایک مثبت اثر ڈالا۔ ایسے میں جب 2015ء میں اسکاٹ لینڈ سے کھیلتے ہوئے، افغان قومی کرکٹ ٹیم نے قومی سوچ کو نئی جہت کی جانب متوجہ کرایا۔ اور نیوزیلینڈ سے ٹیلی ویژن پر براہ راست کرکٹ میچ کی نشریات دیکھنے پر اُن کے بیٹوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی آئی۔
دائود نے بتایا کہ 'اس میچ نے میرے بچوں کا ذہن بدل ڈالا ہے'۔
بقول اُن کے، اب وہ کرکٹ کو شوق سے دیکھتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر کرکٹ میچ دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے موبائل فون پر کرکٹ دیکھتے ہیں اور باغیوں کے پروپیگنڈہ پر کان دھرنے کی جگہ افغان کرکٹ ٹیم کے بارے میں خبروں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
ایسے میں جب افغانستان کے کچھ حصوں میں دولت اسلامیہ اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے اور طالبان دوبارہ زور پکڑتے جا رہے ہیں، کرکٹ کو فروغ دینے والوں کو قوی امید ہے کہ یہ کھیل لوگوں میں رچ بس رہا ہے، اور یوں، اس میں ایک نئی سمت دینے کی قوت پنہاں ہے۔
افغان کرکٹ کے ایک چمکتے ستارے، حامد حسن نے 'وائس آف امریکہ' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 'برعکس اس کے کہ کسی غلط راہ پر چل پڑیں، ایسا ہے کہ (بندوق اور منشیات کی جگہ) ہم قلم، بلہ اور بال اٹھانے لگے ہیں'۔
ایک خودمختار ادارے کے طور پر، افغان کرکٹ بورڈ ملک میں کرکٹ کے کھیل کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ بورڈ نے 'انڈر 19' ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جب کہ صوبائی شاخیں اس کے علاوہ قائم کی گئی ہیں، جہاں وہ نوجوانوں کو بھرتی کرکے تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
صوبہ خوست سے تعلق رکھنے والےکرکٹ کے ایک افغان نوجوان، فضل رحیم کے بقول، 'کرکٹ نے ہمارے عوام پر بہت مثبت اثر ڈالا ہے'۔
کرکٹ کو فروغ دینے والے اور شدت پسند دونوں ہی افغان نوجوانوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو ملازمت میسر نہیں اور وہ دیہاتی علاقوں کے مکین ہیں، اس لیے اُنھیں ماسوائے شدت پسند گروہوں میں شامل ہونے کے، اور کوئی راستہ دستیاب نہیں رہا۔