وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے فوج کے سینئر ترین لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف تعینات کرنے کی سمری صدرِ مملکت عارف علوی کو بھجوا دی ہے۔
پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں اب یہ بحث جاری ہے کہ کیا صدرِ مملکت وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر من و عن عمل کرتے ہوئے سمری پر دستخط کر دیں گے یا اس معاملے میں ایک بار پھر کوئی پیچیدگی سامنے آ سکتی ہے۔
تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان متعدد بار آرمی چیف کے تقرر پر بات کر چکے ہیں جب کہ ان کی جانب سے دیے گئے ان بیانات کے باعث بھی یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی حکومت کی تجویز پر اعتراض کرسکتے ہیں۔
وفاقی وزیرِِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ صدر عارف علوی کے لیے بھی یہ آزمائش ہے کہ وہ سیاسی تجویز پر عمل کریں گے یا وہ آئینی اور قانونی سمری کو نافذ العمل بنائیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے فوج کو سیاسی تنازعات سے دور رکھنا صدر کا فرض ہے۔
یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کے صدر آرمی چیف کی تقرری کے عمل میں کیا کردار ہے اور کیا وہ وزیر اعظم کی جانب سے بھجوائی جانے والی سمری کو مسترد، التوا یا واپس بھیج سکتے ہیں۔
آرٹیکل 243 کی شق تین کے مطابق وزیرِ اعظم کی سفارش پر صدر تینوں فورسز یعنی بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو تعینات کریں گے۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی کو اصولی طور پر وزیرِ اعظم کی سفارش کو منظور کرنا چاہیے تاہم آئین انہیں اختیار دیتا ہے کہ وہ سمری کو نظرِ ثانی کے لیے دوبارہ وزیرِ اعظم کو ارسال کر سکتے ہیں۔
آئینی امور کے ماہر اور قانون دان حامد خان کہتے ہیں کہ آئین کی جس شق کے تحت فضائیہ اور بحریہ کے سربراہ کا تقرر کیا جاتا ہے، اسی شق اور عمل کے ذریعے ہی آرمی چیف کی تعیناتی ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ جس قدر غیر معمولی اہمیت آرمی چیف کے تقرر کو دی جاتی ہے وہ فضائیہ، بحریہ کے سربراہ یا چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کو حاصل نہیں ہے۔
'صدر زیادہ سے زیادہ اس معاملے کو 25 روز تک التوا میں ڈال سکتے ہیں'
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حامد خان نے کہا کہ آئین کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی ایک معمول کا عمل ہے۔ اس تعیناتی کی سمری دیگر سمریوں کی طرح ہی ہے وزیرِ اعظم ہاؤس سے ایوانِ صدر ارسال کی جاتی ہے۔
اُن کے بقول فوج کے سیاسی کردار اور ماضی میں لگنے والے مارشل لا کی وجہ سے یہ تقرر غیر معمولی بن چکا ہے۔
حامد خان کہتے ہیں کہ اس عمل میں اگرچہ حتمی اختیار وزیرِ اعظم کا ہی ہے البتہ آئینی طور پر صدر اسے التوا میں بھی ڈال سکتے ہیں جب کہ اس طرح یہ عمل زیادہ سے زیادہ 25 دن تک تاخیر کا شکار رہ سکتا ہے۔
ایوانِ صدر میں مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے فاروق عادل کہتے ہیں کہ صدر کا ریاست کے معاملات میں کردار اگرچہ رسمی ہے البتہ سربراہِ ریاست کے طور پر کسی بھی اہم تقرر ی اور قانون سازی کے لیے صدر کے دستخط سے اعلامیے کا جاری ہونا لازم ہے۔
'نامزدگی وزیرِ اعظم کا اختیار مگر صدر کی منظوری ناگزیر ہے'
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فاروق عادل نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر میں اصل اختیار وزیرِ اعظم کا ہے البتہ صدر کی منظوری کی ناگزیر ضرورت کے بغیر کوئی بھی تقرر عمل میں نہیں لایا جاسکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر کسی بھی سمری کو 15 دن تک التوا میں ڈال سکتے ہیں یا وزیرِ اعظم کو نظرِ ثانی کے لیے دوبارہ ارسال کر سکتے ہیں تاہم اگر وزیرِ اعظم دوبارہ وہی سمری ارسال کرتے ہیں تو وہ 10 روز کے بعد اس کی خود بخود قانونی حیثیت بن جاتی ہے۔
ایسے میں اگر صدر عارف علوی آرمی چیف کی تعیناتی کی وزیرِ اعظم کی سمری کو التوا میں ڈالتے ہیں تو کیا اس سے کوئی بحرانی صورتِ حال پیدا ہونے کا خدشہ ہے؟ اس بارے میں حامد خان کہتے ہیں کہ اس اہم تعیناتی کے عمل میں اگر صدر عارف علوی کی جانب سے تاخیر کی گئی تو اس کے بہت سے معاملات پر اثرات مرتب ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ صدر کو اصولی طور پر وزیرِ اعظم کی سفارش ماننی چاہیے کیوں کہ وہ اس عمل کو صرف التوا کا شکار کر سکتے ہیں جب کہ آئین کے مطابق حتمی طور پر انہیں وزیرِ اعظم کی سفارش ہی ماننی ہو گی۔
فاروق عادل سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کا تقرر معمول کا عمل نہیں ہے لہٰذا اس حوالے سے وزیرِ اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر کے درمیان معاملات پہلے طے کیے جائیں گے جس کے بعد سمری ارسال کی جائے گی تاکہ کوئی بحرانی صورت حال پیدا نہ ہو۔
یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں کارکنوں کو جمع ہونے کی کال دی ہے جس سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اس تقرر کے عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زردار نے ہفتے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان سے کہا تھا کہ وہ اپنے لانگ مارچ کی تاریخ کو آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کے ایام کے بعد رکھیں تاکہ فوج میں قیادت کی تبدیلی کا عمل متاثر نہ ہو۔