|
بھارتی حزب اختلاف کی پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے گزشتہ دو مہینوں کے دوران 15 ریاستوں میں 6 ہزار 600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے، یہ پیغام دیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کے عوام کو معاشی اور سماجی انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
گاندھی کی 19 اپریل سے شروع ہونے والا،" یونائیٹ انڈیا جسٹس مارچ "ہفتے کو ممبئی میں ختم ہو گیا ۔ اس مارچ کا مقصد عام انتخابات سے قبل اپنی کانگریس پارٹی کو فروغ دینا تھا۔
مارچ کے دوران اپنے درجنوں روڈ شوز میں، انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں سے بڑی کاروباری شخصیات کو فائدہ ہوا، پس ماندہ عوام کو نہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ان کی پارٹی بے روزگاری جیسے مسائل حل کرے گی خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں میں۔
انٹرن شپ کے حق سے متعلق ایکٹ، رائٹ ٹو اپرنٹس ایکٹ کے نفاذ کا وعدہ کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا، اگر ہم ووٹنگ سے اقتدار میں آ گئے تو" ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ کالج سے ڈپلومہ حاصل کرنے والے ہر شخص کو ایک سال کے لیے اپرنٹس یا انٹرن کے طور پر ایک سال کی ملازمت ملے گی اور وہ ایک سال میں 1,200 ڈالر کے مساوی کمائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ نوجوانوں کی قسمت بدل دے گا۔ انہوں نے تیس لاکھ سرکاری ملازمتوں کی خالی اسامیاں پر کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
کیا راہول گاندھی کے وعدے وزیر اعظم مودی کی مقبولیت کم کر سکتے ہیں؟
کیا راہول گاندھی کے اس طرح کے وعدے وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کو کم کر سکیں گے جو حالیہ جائزوں کےمطابق تیسری مدت کے لیے انتخاب جیت لیں گے؟
سیاسی تجزیہ کار نیراج چوہدری کے مطابق گاندھی کو نریندر مودی کی حکومت سے غیر مطمئن تمام افراد کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے، تاہم انہوں نے کہا، گاندھی کا پیغام جو مودی حکومت کی مبینہ بد عنوانی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور ان مشکلات سے متعلق ہے جن کا لوگ سامنا کر رہے ہیں، ملک میں اس قسم کی تحریک نہیں پیدا کر سکتا جیسا کہ کسی کا خیال ہو سکتا تھا۔
یہ صورت حال کانگریس پارٹی کی ان امیدوں کے لیے ایک چیلنج ہے جو وہ 19 اپریل کو شروع ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑنے سے متعلق رکھتی ہیں۔
کانگریس نے جو بھار ت کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے، پانچ سال قبل ایوان زیریں کی 543 نشستوں میں سے صرف 52 نشستیں جیتی تھیں۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے 350 سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔
سیاسی تجزیہ کار سندیپ شاستری، نے کہاکہ راہول گاندھی حالیہ اعداد و شمارکی نشاندہی کر کے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بے روزگاری اور افراط زر ملک کے اہم خدشات ہیں، بلا شبہ صحیح مسائل سامنے لا رہے ہیں۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اٹھائے گئے درست مسائل ووٹوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں؟ کیوںکہ بقول ان کے، اس کا زیادہ تر تعلق ووٹروں کے اس تاثر سے ہے کہ کون ان مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
مودی نے حالیہ ہفتوں میں خود کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا ہے جو نتائج سامنے لا سکتا ہے اور جس نے اپنے دس سالہ دور اقتدار کے دوران بھارت کے غریبوں کی زندگیوں کو بہتر کیا ہے۔
مودی نے جنوبی ریاست تلنگانہ میں، جہاں ان کی پارٹی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے ایک میٹنگ میں کہا، ''ہم نے غریبوں کے لیے بنک اکاؤنٹ کھولے ہیں، پکے گھر بنانے میں ان کی مدد کی ہے، اور انہیں پانی، بجلی کے کنکشن اور مفت ویکسینز دی ہیں۔ انہوں نے کہا ، تبدیلی کی صرف ایک گارنٹی ہے، وہ ہے مودی کی گارنٹی۔
حزب مخالف کا اتحاد
کانگریس نے گزشتہ سال مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے، بی جے پی کے مقابلے کے لیے، لگ بھگ دو درجن علاقائی جماعتوں کا ایک اتحاد تشکیل دیا تھا۔
لیکن بی جے پی کو ایک موثر چیلنج دینے کی امیدیں اس لیے ماند پڑ گئی ہیں کہ حزب اختلاف کے انڈیا نامی اتحاد میں اختلافات کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ انڈیا، ’انڈین ڈویلپمنٹ انکلیوسیو الائنسز ‘کا مخفف ہے۔
اس اتحاد کا مقصد بی جے پی کے خلاف ایک مشترکہ امیدوار سامنے لانا تھا تاکہ پارلیمانی حلقوں میں ووٹوں کی تقسیم کو روکا جا سکے، جہاں اکثر کئی کئی امیدوار مقابلہ کرتےہیں، جس کے نتیجے میں، پارٹیاں ڈالے جانے والے ووٹوں میں سے پچاس فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کر کے بھی انتخابات جیت جاتی ہیں۔
لیکن نشستیں شئیر کرنے کے بارے میں بات چیت کچھ ریاستوں میں آگے بڑھنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال میں جہاں طاقتور علاقائی لیڈر ممتا بینر جی نے فیصلہ کیا ہےکہ ان کی پارٹی تمام نشستوں پر مقابلہ کرے گی۔
چوہدری کہتے ہیں کہ یہ ایک کھویا ہوا موقع ہے۔ ’یونائیٹڈ فرنٹ انڈیا‘ کے کچھ بڑے رہنما اتحاد سے الگ ہو گئے ہیں۔ کچھ دوسرے لیڈر کانگریس میں شامل نہیں ہو رہے اور دوسری جماعتیں ایک وسیع تر پلیٹ فارم بنا رہی ہیں۔
تجزیہ کار، اتحاد میں ان دراڑوں کو ان نقصانات سے منسوب کرتے ہیں جن کا سامنا کانگریس کو دسمبر میں ہونے و الے انتخابات میں ہوا تھا ۔ پارٹی دو ریاستوں، راجسستھان اور چھتیس گڑھ میں اقتدار سے محروم ہو گئی اور ایک تیسری ریاست میں بی جے پی کو اقتدار سے الگ کرنے میں ناکام رہی تھی۔
شاستری کہتے ہیں کہ اس سے اتحاد میں کانگریس پارٹی کا اہم کردار کمزور ہو گیا اور اس کے نتیجے میں، "میرا خیال ہے کہ ریاستوں میں قائم جماعتوں نے بھی جو اتحاد کا حصہ تھیں، اپنی انفرادی اسٹریٹیجیز کو از سر نو متعین کرنا شروع کر دیا کیوں کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں بی جے پی کو چیلنج کرنے پر زیادہ فکر مند تھیں۔"
فورم