کم و بیش ایک دہائی سے افغانستان کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ 10 کرپٹ حکومتوں میں ہوتا تھا۔ لیکن رواں برس افغانستان میں کرپشن کمی کے باعث وہ 10 کی اس فہرست سے نکل آیا ہے اور وہاں قائم طالبان حکومت اس بہتری کی دعوے دار ہے۔
برلن میں قائم غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے منگل کو کرپشن سے متعلق عمومی تاثر کی درجہ بندی یا کرپشن پرسیپشن انڈیکس کی تفصیلات جاری کی ہیں۔اس درجہ بندی میں ڈنمارک کو سب سے کم کرپشن کے ساتھ پہلے نمبر پر جب کے صومالیہ کو 180 ویں درجے کے ساتھ دنیا کا سب سے کرپٹ ملک قرار دیا گیا ہے۔
طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان اس درجہ بندی میں 150 ویں نمبر ہے جب کہ 2021 میں یہ 174 ویں نمبر پر تھا۔سن 2011 میں جب امریکہ کی فوج افغانستان میں موجود تھی اور وہاں امریکہ ترقیاتی کاموں میں معاونت بھی فراہم کررہا تھا تو اس دور میں افغانستان شمالی کوریا اور صومالیہ کے ساتھ 180 ویں درجے پر بدعنوان ترین ملک قرار پایا تھا۔
طالبان حکومت میں بدعنوانی سے متعلق ملک کی درجہ بندی میں یہ بہتری کئی حلقوں کے لیے حیران کُن ہیں۔ اس حکومت کو سخت گیر قوانین، خواتین پر تعلیم اور دیگر شعبوں میں قدغنیں اور میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے عالمی تنقید اور مذمت کا سامنا ہے۔ لیکن مبصرین کے مطابق افغانستان کے نظامِ حکومت کو لاحق بدعنوانی کے دیرینہ عارضے میں بہتری کا پورا کریڈٹ طالبان کو نہیں دیا جاسکتا۔
’معلومات کا حصول چیلنج ہے‘
ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی کمیونیکیشن مینیجر سمانتھا نیورک کا کہنا ہے کہ سنی سنائی باتوں کے مطابق رشوت ستانی میں کمی آئی ہے اور طالبان اپنی آمدن بڑھانے کے لیے بھی فکر مند ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ایسے قابلِ تصدیق شواہد نہیں کہ ملک سے منظم انداز میں کرپشن کی بیخ کَنی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کرپشن سےمتعلق افغانستان کے اسکور میں شماریاتی اعتبار سے غیر معمولی کمی نہیں آئی ہے اور اسے زمینی حالات میں بہتری سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے قابلِ اعتبار معلومات کا حصول بھی ایک چیلنج ہے۔
اگست 2021 میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد طالبان کم از کم بعض سرکاری محکموں سے رشوت ستانی اور بھتہ وصولی میں مبینہ طور پر کمی لائے ہیں۔
یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے سینئر محقق ولیم بائرڈ کا کہنا ہے کہ طالبان نے کسٹمز اور سڑکوں کی چوکیوں پر کرپشن کم کرنے میں اپنی اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
عالمی سطح پر تنہائی، بدترین معاشی حالات اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود کرپشن پر قابو پانا ہی طالبان کی بقا کا آخری کا سہارا ہے۔
گزشتہ ہفتے عالمی بینک نے طالبان کے زیر انتظام افغان معیشت سے متعلق جائزے میں کہا ہے کہ ملک کی برآمدات بڑھی ہیں، کرنسی کی شرحِ مبادلہ مستحکم اور ٹیکس وصولوی کا نظام مستحکم ہے۔ یہ جائزہ 2022 کے ابتدائی تین سہ ماہی سے متعلق تھا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 10 ماہ کے دوران ٹیکس جمع کرنے کے لیے ان کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے حکومت کی سالانہ آمدن 1.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن طالبان اس بات کی وضاحت نہیں کرتے کہ وہ ان قومی وسائل کا استعمال کہاں کررہے ہیں۔
طالبان نے افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول اور یونیورسٹیاں بند کردی ہیں البتہ پورے ملک میں لڑکوں کے لیے مذہبی تعلیم فراہم کرنے والے ہزاروں مدارس بنانے کے لیے مالی معاونت فراہم کی ہے۔
گزشتہ برس طالبان کے قائم مقام وزیرِ دفاع نے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت ایک لاکھ 10 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک طاقت ور فوج تیار کرے گی۔
امداد اور کرپشن
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران طالبان امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت سے برسرِ پیکار رہے۔ وہ افغان حکومت پر بدعنوانی اور نااہلی کا الزام بھی عائد کرتے تھے۔
افغانستان میں امریکہ کے جاری منصوبوں میں بدعنوانی اور بد انتظامی کی تحقیقات کرنے والے ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فور افغانستان ریکنسٹریکشن(سیگار) کے مطابق امریکہ نے طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل افغانستان کی تعمیرِ نو پر 146 ارب ڈالر صرف کیے۔ سیگار نے کئی افغان اور امریکی کانٹریکٹرز کے خلاف کرپشن میں ملوث ہونے پر کارروائی بھی کی۔
سیگار کی ترجمان شیلبی کیوسک نے وائس آف امریکہ کو ایک تحریری جواب میں بتایا کہ امریکہ افغانستان میں کرپشن کی حجم کا اندازہ ہی نہیں کرسکا، جنگجو سردار اور دیگر کرپٹ عناصرمضبوط ہوتے گئے۔ امریکہ نے اس شرح سے افغانستان میں رقوم خرچ کیں جن کا پورا پورا استعمال نہیں ہوسکتا تھا۔
کرپشن کی وجہ سے افغان حکومت کی عوامی حمایت میں مسلسل کمی آئی اور طالبان سے مذاکرات میں اس کی پوزیشن بھی کمزور ہوئی۔ اس کے نتیجے میں 2021 میں طالبان کابل نے کابل کا اقتدار حاصل کرلیا۔
مغربی ڈونرز نے افغانستان کو ترقیاتی امداد فراہم دینا بند کردی ہے البتہ طالبان کے زیر انتظام اداروں کو بائی پاس کرکے انہوں نے انسانی امداد جاری رکھی ہوئی ہے۔
طالبان نے افغانستان کے سرکاری اداروں میں کرپشن کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن اب بھی شہریوں کو پاسپورٹ کے حصول جیسے کام کرانے کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے۔ سینئر طالبان حکام بارہا کرپشن کے خاتمے کے عزم ظاہر کرچکے ہیں۔
بارسلونا سینٹر فور انٹرنیشنل افیئر سے وابستہ محقق ملائز داؤد کا کہنا ہے کہ طالبان کے موجودہ سپریم لیڈر اور ان کے قریبی ساتھی اخلاقی اور مالی کرپشن کے خاتمے کے لیے زیادہ پرجوش ہیں۔ لیکن اس وقت بلاشبہہ افغانستان میں کرپشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
طالبان نے رشوت کے لین دین کو جرم قرار دیا ہے۔ لیکن عوامی وسائل میں خرد برد، سرکاری عہدوں پر تقرری میں اقربا پروری، سرکاری سرگرمیوں سے متعلق معلومات تک رسائی اور اختیارات کے غلط استعمال کی سطح پر بندعنوانی افغانستان میں عام ہے۔
یہ خبر وائس آف امریکہ کے لیے اکمل دعوی کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔