کراچی —
نگران وزیراعظم کے لئے چار ناموں پر غور کرنے والی پارلیمانی کمیٹی تین دن تک سرجوڑ کربیٹھے رہنے کے باوجود کسی ایک نام پر اتفاق نہ کر سکی۔ اس کی کیا وجوہات تھیں اس حوالے سے روزنامہ جنگ کراچی نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔
اس رپورٹ میں ان الزامات اور اعتراضات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے جو حُکومت نے اپوزیشن اور اپوزیشن نے حُکومت کی طرف سے پیش کئے گئے ناموں پر لگائے ہیں۔ اپنے قارئین کی دلچسپی کی غرض سے ہم ان اعتراضات کو ذیل میں پیش کررہے ہیں:
رپورٹ کے مطابق نگراں وزیراعظم کے لئے پہلے روز ہی 5 بنیادی اصول طے کرلئے گئے تھے۔ 1۔ نگران وزیراعظم کا امیدوار صاف شفاف کردار کا مالک ہو۔ 2۔ نگران وزیراعظم غیرجانبدار ہو۔ 3۔ انتظامی امور کا تجربہ رکھتا ہو۔ 4۔ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہ ہو۔ 5۔ اچھی شہرت کا حامل ہو اور دیانتدار ہو۔
اعتراضات اور الزامات
اجلاس کے پہلے روز مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار رسول بخش پلیجو کے نام پر غور ہوا۔ یہ نام مسلم لیگ (ن) نے پیش کیا۔ مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ رسول بخش پلیجو سندھ کے معروف بزرگ قوم پرست رہنما ہیں۔ انہیں فنکشنل لیگ اور سندھ کے قوم پرستوں کی حمایت حاصل ہے۔
پی پی پی کا رسول بخش پلیجو کے نام پر الزام تھا کہ وہ سندھ کے پی پی پی مخالف اور ایک سخت گیر قوم پرست سیاستدان ہیں۔ وہ پی پی پی کے خلاف قوم پرستوں کے 9 جماعتی اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ پی پی پی کے خلاف انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور جس روز مسلم لیگ (ن) نے انہیں امیدوار نامزد کیا دو گھنٹے بعد انہوں نے پریس کانفرنس کر دی کہ میں سندھ میں پی پی پی کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور ملکی معیشت کو پی پی پی نے تباہ کیا۔
پی پی پی کے تابڑ توڑ اعتراضات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے رسول بخش پلیجو کے نام پر اصرار نہیں کیا۔
دوسرا نام پی پی پی کے امیدوار اور اسٹیٹ بینک کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عشرت حسین کا تھا۔ پی پی پی نے ان کے پروفائل میں کہا کہ وہ غیرجانبدار ماہر معیشت ہیں اور انتظامی تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی مالیاتی سکینڈل نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کو ڈاکٹر عشرت حسین کے نام پر شدید اعتراضات تھے۔ ان پر الزام آیا کہ وہ فوجی آمر مشرف کے ساتھی رہے اور پاکستان کی معاشی بدحالی میں ان کی غلط پالیسیوں کا بڑا کردار ہے۔ ان پر تیسرا الزام تھا کہ وہ صدر زرداری کے بھی قریب ہیں اور صدر زرداری کے ایک ایمبیسیڈر ایٹ لارج خلیل احمد کے ساتھ ان کی قریبی رشتہ داری ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین پر الزام آیا کہ وہ گرین کارڈ ہولڈر بھی ہیں۔ پی پی پی ڈاکٹر عشرت حسین دفاع کرتی رہی کہ رشتہ داریوں کی بنا پر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ڈاکٹر عشرت حسین کا نام بھی پہلے روز ہی ڈراپ ہو گیا۔
دوسرے روز جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس میر ہزار خان کھوسو کے نام زیرغور آئے۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد کے پروفائل میں مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔ ناصر اسلم زاہد کی جمہوریت اور انسانی حقوق سے بہت واضح کمٹمنٹ ہے۔ وہ صاف شفاف کردار کے حامل ہیں ۔
ان پر پی پی پی کا اعتراض تھا کہ جسٹس نظام صدیقی جسٹس ناصر اسلم زاہد کے بہنوئی تھے۔ جسٹس نظام صدیقی کے قتل میں آصف علی زرداری کو ملوث کیا گیا حالانکہ وہ اس وقت جیل میں تھے۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ بے نظیر بھٹو نے انہیں وفاقی لا سیکرٹری بنایا اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا حصہ بن گئے اور بے نظیر بھٹو کے خلاف ایک توہین آمیز اور جھوٹی چارج شیٹ انہوں نے بطور لاء سیکرٹری تیار کی تھی۔
پی پی پی کا چوتھا الزام یہ تھا کہ انہوں نے ضیاء دور میں پی سی او کا حلف اٹھایا تھا۔ مسلم لیگ (ن) دفاع کرتی رہی کہ انہوں نے مشرف دور میں پیشکش کے باوجود پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ مسلم لیگ (ن) ضیاء دور کے پی سی او کو پی سی او نہیں مانتی۔
نگران وزیراعظم کے لئے چوتھا نام جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کا تھا جسے پیپلزپارٹی نے پیش کیا۔ ان کے پروفائل میں کہا گیا کہ میر ہزار خان کھوسو بلوچستان ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی حیثیت سے وسیع انتظامی تجربہ رکھتے ہیں۔ انکا تعلق چھوٹے صوبے سے ہے۔ نگران وزیراعظم بننے سے بلوچستان اور چھوٹے صوبوں کو اچھا پیغام جائے گا۔ وہ صاف ستھری شخصیت کے مالک ہیں۔
جسٹس کھوسہ پر مسلم لیگ (ن) کا اعتراض تھا کہ وہ پہلے بے نظیر بھٹو کے قریب تھے اور اب آصف زرداری کے۔ یہ بھی ذکر آیا کہ جسٹس کھوسو کو ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا تھا اور انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔
دوسرا اعتراض تھا کہ عمر زیادہ ہے۔ اس پر دیگر امیدواروں کی عمر کا چارٹ بھی پیش ہوا تھا اور خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ”ینگ مین صرف عشرت حسین ہیں جن کی عمر 74 سال ہے۔ ہزار کھوسو، ناصر اسلم زاہد اور پلیجو سے چھوٹے ہیں۔ پلیجو 87 برس، ناصر اسلم زاہد 84 برس اور کھوسو 82 برس کے ہیں۔
اس رپورٹ میں ان الزامات اور اعتراضات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے جو حُکومت نے اپوزیشن اور اپوزیشن نے حُکومت کی طرف سے پیش کئے گئے ناموں پر لگائے ہیں۔ اپنے قارئین کی دلچسپی کی غرض سے ہم ان اعتراضات کو ذیل میں پیش کررہے ہیں:
رپورٹ کے مطابق نگراں وزیراعظم کے لئے پہلے روز ہی 5 بنیادی اصول طے کرلئے گئے تھے۔ 1۔ نگران وزیراعظم کا امیدوار صاف شفاف کردار کا مالک ہو۔ 2۔ نگران وزیراعظم غیرجانبدار ہو۔ 3۔ انتظامی امور کا تجربہ رکھتا ہو۔ 4۔ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہ ہو۔ 5۔ اچھی شہرت کا حامل ہو اور دیانتدار ہو۔
اعتراضات اور الزامات
اجلاس کے پہلے روز مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار رسول بخش پلیجو کے نام پر غور ہوا۔ یہ نام مسلم لیگ (ن) نے پیش کیا۔ مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ رسول بخش پلیجو سندھ کے معروف بزرگ قوم پرست رہنما ہیں۔ انہیں فنکشنل لیگ اور سندھ کے قوم پرستوں کی حمایت حاصل ہے۔
پی پی پی کا رسول بخش پلیجو کے نام پر الزام تھا کہ وہ سندھ کے پی پی پی مخالف اور ایک سخت گیر قوم پرست سیاستدان ہیں۔ وہ پی پی پی کے خلاف قوم پرستوں کے 9 جماعتی اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ پی پی پی کے خلاف انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور جس روز مسلم لیگ (ن) نے انہیں امیدوار نامزد کیا دو گھنٹے بعد انہوں نے پریس کانفرنس کر دی کہ میں سندھ میں پی پی پی کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور ملکی معیشت کو پی پی پی نے تباہ کیا۔
پی پی پی کے تابڑ توڑ اعتراضات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے رسول بخش پلیجو کے نام پر اصرار نہیں کیا۔
دوسرا نام پی پی پی کے امیدوار اور اسٹیٹ بینک کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عشرت حسین کا تھا۔ پی پی پی نے ان کے پروفائل میں کہا کہ وہ غیرجانبدار ماہر معیشت ہیں اور انتظامی تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی مالیاتی سکینڈل نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کو ڈاکٹر عشرت حسین کے نام پر شدید اعتراضات تھے۔ ان پر الزام آیا کہ وہ فوجی آمر مشرف کے ساتھی رہے اور پاکستان کی معاشی بدحالی میں ان کی غلط پالیسیوں کا بڑا کردار ہے۔ ان پر تیسرا الزام تھا کہ وہ صدر زرداری کے بھی قریب ہیں اور صدر زرداری کے ایک ایمبیسیڈر ایٹ لارج خلیل احمد کے ساتھ ان کی قریبی رشتہ داری ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین پر الزام آیا کہ وہ گرین کارڈ ہولڈر بھی ہیں۔ پی پی پی ڈاکٹر عشرت حسین دفاع کرتی رہی کہ رشتہ داریوں کی بنا پر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ڈاکٹر عشرت حسین کا نام بھی پہلے روز ہی ڈراپ ہو گیا۔
دوسرے روز جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس میر ہزار خان کھوسو کے نام زیرغور آئے۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد کے پروفائل میں مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔ ناصر اسلم زاہد کی جمہوریت اور انسانی حقوق سے بہت واضح کمٹمنٹ ہے۔ وہ صاف شفاف کردار کے حامل ہیں ۔
ان پر پی پی پی کا اعتراض تھا کہ جسٹس نظام صدیقی جسٹس ناصر اسلم زاہد کے بہنوئی تھے۔ جسٹس نظام صدیقی کے قتل میں آصف علی زرداری کو ملوث کیا گیا حالانکہ وہ اس وقت جیل میں تھے۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ بے نظیر بھٹو نے انہیں وفاقی لا سیکرٹری بنایا اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا حصہ بن گئے اور بے نظیر بھٹو کے خلاف ایک توہین آمیز اور جھوٹی چارج شیٹ انہوں نے بطور لاء سیکرٹری تیار کی تھی۔
پی پی پی کا چوتھا الزام یہ تھا کہ انہوں نے ضیاء دور میں پی سی او کا حلف اٹھایا تھا۔ مسلم لیگ (ن) دفاع کرتی رہی کہ انہوں نے مشرف دور میں پیشکش کے باوجود پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ مسلم لیگ (ن) ضیاء دور کے پی سی او کو پی سی او نہیں مانتی۔
نگران وزیراعظم کے لئے چوتھا نام جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کا تھا جسے پیپلزپارٹی نے پیش کیا۔ ان کے پروفائل میں کہا گیا کہ میر ہزار خان کھوسو بلوچستان ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی حیثیت سے وسیع انتظامی تجربہ رکھتے ہیں۔ انکا تعلق چھوٹے صوبے سے ہے۔ نگران وزیراعظم بننے سے بلوچستان اور چھوٹے صوبوں کو اچھا پیغام جائے گا۔ وہ صاف ستھری شخصیت کے مالک ہیں۔
جسٹس کھوسہ پر مسلم لیگ (ن) کا اعتراض تھا کہ وہ پہلے بے نظیر بھٹو کے قریب تھے اور اب آصف زرداری کے۔ یہ بھی ذکر آیا کہ جسٹس کھوسو کو ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا تھا اور انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔
دوسرا اعتراض تھا کہ عمر زیادہ ہے۔ اس پر دیگر امیدواروں کی عمر کا چارٹ بھی پیش ہوا تھا اور خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ”ینگ مین صرف عشرت حسین ہیں جن کی عمر 74 سال ہے۔ ہزار کھوسو، ناصر اسلم زاہد اور پلیجو سے چھوٹے ہیں۔ پلیجو 87 برس، ناصر اسلم زاہد 84 برس اور کھوسو 82 برس کے ہیں۔