فلمی صنعت کے لیے چین ایک بہت بڑی منڈی ہے، لیکن اس میں داخلے کے لیے چین کی سینسرشپ بہت سخت ہے۔ عالمی مارکیٹ کے لیے فلمیں بنانے والوں کو یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی فلم میں ایسا کچھ نہ دکھائیں جس سے چین کی فلمی منڈی میں ان کا داخلہ رک جائے اور ایک منافع بخش مارکیٹ ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔
ہالی وڈ کی فلمی صنعت کے اندورنی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی فلم ساز اپنی فلمیں بناتے وقت اس چیز کا خیال رکھتے ہیں کہ اپنے عالمی ناظرین کو نظرانداز کیے بغیر بیجنگ کو بھی خوش کریں، لیکن اس کے باوجود چین کے مطالبے بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ امریکی فلموں کی سینسر شپ میں اضافہ کر رہا ہے۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ بعض فلم ساز چین کے سینماگھروں کے لیے اپنی فلم کے کچھ مناظر نکال کے اس ملک کے لیے مناسبت رکھنے والے اضافی سین شامل کرتے ہیں۔ کچھ پروڈیوسرز فلم بندی کرتے وقت چینی فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک آدھ چینی کردار بھی ڈال دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ کردار صرف چین میں دکھائی جانے والی فلموں میں ڈالے جاتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود چین کی حکومت صرف چند فلموں کو ہی لائسنس جاری کرتی ہے ۔ اس لیے کچھ فلم ساز لائسنس کا حصول یقینی بنانے کے لیے فلم بندی سے قبل ہی اپنے اسکرپٹ چینی حکام سے منظور کروا لیتے ہیں، کیونکہ لگ بھگ ڈیڑھ ارب آبادی کے ملک چین کی فلم مارکیٹ منافع کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
گزشتہ 25 برسوں سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ فلموں سے ان مناظر کو کاٹ دیتے ہیں جن سے ان کی پالیسی متفق نہیں ہوتی۔
سدرن یونیوسٹی کیلی فورنیا میں پولیٹیکل سائنس کے ایک پروفیسر سٹینلی روسن چین کی فلم انڈسٹری پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بات فلم کے سین کاٹنے سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے ۔ اب چینی حکام اس کے بجائے منظوری دینے سے ہی انکار کر د یتے ہیں۔
فلم انڈسٹری کے مبصرین کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے چینی سینسر کے عہدے دار یہ مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں کہ بیرونی ملکوں کے فلم ساز چین کے لیے فلم کا الگ ورژن تیار کریں اور اسے بیجنگ کے سکرپٹ کے مطابق فلمائیں۔
چین کی فلمی صنعت لگ بھگ ساڑھے سات ارب ڈالر کی آمدنی کا ذریعہ ہے ۔ بین الاقوامی سطح کے فلم ساز اس میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر شہرت حاصل کرنے والی کئی فلمیں سینسر حکام کے اعتراضا ت کے باعث چین کی سرحد عبور کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ بعض اوقات یہ اعتراضات بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر میڈیا رپورٹس کے مطابق پچھلے سال چائنا فلم ایڈمنسٹریشن نے سپر ہیرو فلم ’’سپائیڈرمین۔ نو وے ہوم‘‘ کو اس بنا پر اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ اس کے بعض مناظر میں مجسمہ آزادی دکھائی دیتا ہے ، جب کہ حکام کا اصرار تھا کہ مجسمہ آزادی کو سین میں سے نکال دیا جائے۔
اسی طرح 2015 کی مشہور سائنس فکشن فلم ’’پکسلز‘‘ کے ایک منظر میں خلا سے آنے والی مخلوق کو دیوار چین میں سوراخ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ سینسر حکام نے اس منظر کو فلم سے نکالے جانے کے بعد اس کی نمائش کی منظوری دی تھی۔
اس سال ریلز ہونے والی مارول اسٹویوز کی فلم ’’ ڈاکٹر سٹریج ان دی ملٹی ورس آف میڈنس‘‘ کے بارے میں بھی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسے چین میں نمائش کی اجازت ملنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس میں فالن گونگ کو دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک روحانی تحریک تھی جس پر چین میں پابندی عائ ہے۔ سرکاری سرپرستی میں چلنے والا چینی اخبار گلوبل ٹائمز اس پر پہلے ہی اعتراض اٹھا چکا ہے۔
نیویارک میں قائم آزادی اظہارکے فروغ کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ پین امریکہ کے ایک عہدے دار جیمز ٹیگر کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے دور میں امریکہ چین کشیدگی میں اضافے کے بعد چین کی فلم مارکیٹ میں امریکی فلم سازوں کے لیے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چینی عہدے داروں کے اعتراضات سے بچنے کے لیے ہالی وڈ کی فلم کمپنیاں فلم بھیجنے سے پہلے ہی اسے خود بھی اچھی طرح سینسر کرتے ہیں۔
ٹیگر کا کہنا ہے کہ فلم میں سے کچھ مناظر کاٹنے سے انکار پر منظوری نہ ملنا تو عام سی بات ہے لیکن اگر اسے ڈزنی اور مارول وغیرہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاملہ گھمیبر ہو جاتا ہے کیونکہ ان کے وہاں دیگر کاروباری مفادات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر شنگھائی کے تفریجی پارک ڈزنی لینڈ میں والٹ ڈزنی کے 47 فی صد شیئرز ہیں۔چین کو ناراض کرنے سے ان کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کے رکن اور ہالی وڈ انڈسٹری کے ایک ایکزیکٹو کرس فنٹن کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ ’’چینی ڈریگن‘‘ جیسے جیسے طاقتور ہو رہا ہے، اس کی خواہشات کا دائرہ بھی پھیلتا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب بات صرف چین کے اندر فلم دکھانے تک ہی محدود نہیں رہی۔ کچھ فلم اسٹوڈیوز اس سلسلے میں بھی فکر مند رہتے ہیں کہ چین سے باہر دکھائی جانے والی ان کی فلم میں کوئی ایسی چیز موجود نہ ہو جس پر چین معترض ہو سکتا ہو۔
’’ میرے خیال میں سب سے بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب چین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ چین سے باہر دکھائی جانے والی ہماری فلم میں ایسا مواد موجود نہیں ہونا چاہیے جسے چین ناپسند کرتا ہو۔ یعنی دوسرے لفظوں میں وہ چاہتا ہے کہ فلم میں ہالی وڈ یا کسی فلم اسٹوڈیوز کے بیانیے کی بجائے چین کا بیانیہ شامل ہو۔ سوال یہ ہے کہ چین کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ ہم نے ارجنٹائن میں کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں دکھانا۔
بنکاک میں قائم ایک تھنک ٹینک ایشیا سینٹر کے علاقائی ڈائریکٹر جیمز گومز کہتے ہیں کہ چین یہ چاہتا ہے کہ دنیا کے بارے میں اس کی رائے کی گونج کل عالم میں سنائی دے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب ہالی وڈ آہستہ آہستہ چین کے من مانے مطالبات کی حدت کو محسوس کرنے لگا ہے اور انہیں یہ احساس ہو گیا ہے کہ چین کی خواہشات کے مطابق فلمیں بنانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ان کی خواہش کے مطابق بنی ہوئی فلمیں صرف چین کے اندر ہی بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں اور دیگر ممالک میں انہیں بہتر پذیرائی نہیں مل پاتی۔