واشنگٹن —
شادمان ٹاؤن کراچی کے سیلون ”سیزرز کلب“ میں کام کرنے والا محمد رمضان عرف رضا سندھ اسمبلی کی جانب سے جمعرات کو پاس ہونے والی ایک قرار داد کی خبر پر بہت خوش ہے۔
اپنی سیلون پر چلنے والے ٹی وی کے ذریعے جیسے ہی اس نے سنا کہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اساتذہ کے اسکولوں میں طلبا پر تشدد کے خلاف ایک قرار داد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور بھی کر لیا گیا، وہ خوشی سے بول اٹھا ”بہت اچھی خبر ہے چلو اب بچے اسکول جاتے ہوئے نہیں ڈریں گے۔ ٹیچر سے پٹنے کا خوف ہی ہمیں بھی تعلیم سے دور کرگیا اور ہم نے وقت سے پہلے ہی قینچی اور استرا اٹھالیا۔“
وائس آف امریکہ کے نمائندے کی دلچسپی بھانپتے ہوئے رضا نے مزید بتایا کہ وہ ضلع بھکر پنجاب کا رہنے والا ہے۔ دوسری کلاس میں تھا کہ ٹیچر کی سختی، ڈانٹ ڈپٹ اور مار پٹائی کے خوف سے وہ گاؤں کا اسکول ہی نہیں علاقے کو بھی چھوڑ کر ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گیا ۔ چچا کی دکان پر بال کاٹنے کا کام سیکھا۔ آصف نامی ایک استاد سے جس نے اس کے نام کے آگے ”رضا“ کا اضافہ کردیا۔ اب سب محمد رمضان کے بجائے اسے رضا پکارتے ہیں۔
رضا پچھلے 12سال سے کراچی میں مقیم ہے لیکن یہاں آکر اسے سب سے زیادہ جس چیز کا پچھتاوا ہوتا ہے وہ اپنی تعلیم ہے۔ رضا کا کہنا ہے کہ اس کے ذہن میں ٹیچر کے ہاتھوں تشدد کا خوف بیٹھ گیا تھا اس لئے وہ اسکول سے بھاگ گیا۔
پاکستان کا ایک نجی ٹی وی چینل ”جیو “رضا جیسے سینکڑوں اور ہزاروں اسکول نہ جانے والے بچوں، خاص کر پٹائی کے خوف سے اسکول سے بھاگ جانے والے بچوں کے حوالے سے ایک پروگرام پیش کررہا ہے جس کا نام ہے ”چل پڑھا“۔
’چل پڑھا ‘کے روح رواں پاپ سنگر شہزاد رائے ہیں۔ ” چل پڑھا “میں انہوں نے ملائکہ نامی ایک بچی کا کیس اٹھایا ہے جس میں اس کے استاد نے اس بچی پر قلم پھینکا جو بچی کی آنکھ پر جالگا جس سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔
اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف فوراً حرکت میں آئے اوراعلان کیا کہ سرکاری اسکولوں میں طلبا پر تشدد کر نے والے اساتذہ کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ یقین بھی دلایا کہ حکومت پنجاب اس حوالے سے بہت جلد قانون سازی بھی کرے گی۔
پنجاب کے ساتھ ساتھ جمعرات کو سندھ حکومت بھی حرکت میں آگئی جس کے بعد آج ہی سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اساتذہ کے اسکولوں میں طلبا پر تشدد کے خلاف قرار داد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
قرار داد کی منظوری کے بعد شہزاد رائے نے فون پر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ، ’’اس قرار داد کی منظوری کا کریڈٹ کسی ایک فرد یا کسی ایک ادارے کو نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کو جاتا ہے۔ بالخصوص ان سیاستدانوں کو جنھوں نے فوراً اس واقعے کا نوٹس لیا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ” مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس پروگرام کی وجہ سے اتنی جلدی اس معاملے کا نوٹس لے لیا جائے گا۔“
شہزاد نے وی او اے کو بتایا کہ انھوں نے اپنے ٹی وی شو ”چل پڑھا“ میں یہ دکھایا ہے کہ گورنمنٹ اسکولوں میں بچوں کو کس طرح مارا پیٹاجاتا ہے اور جو لوگ اپنے بچوں سے پیار کرتے تھے انھوں نے اس کا فوراً نوٹس لیا۔ اس معاملے میں تمام لوگوں نے ایک ساتھ ری ایکشن دکھایا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس ایشو پر اچھے اور برے تمام لوگ ایک ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے استفسار پر شہزاد رائے نے بتایا کہ اس قرار داد کی منظوری کے بعد وہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لئے بہت زیادہ پر امید ہیں۔انھوں نے بتایا ”میں تو اپنی تنظیم ”زندگی “کے ذریعے گورنمنٹ اسکولوں کو ٹھیک کر نے کا کام کر رہا ہوں اور چونکہ میں خود تعلیمی ماہر نہیں لہٰذا میں نے تو صرف جو گورنمنٹ اسکولوں میں دیکھا اور جو میرا تجربہ تھا وہ ایک آرٹسٹ ہونے کے ناطے میڈیا میں پیش کیا ہے ۔“
انکا کہنا تھا کہ ہماری تنظیم کا فوکس صرف گورنمنٹ اسکول ہیں کیونکہ اگر سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نظام بہتر ہو گاتو پورے پاکستان کا نظام بہتر ہو جائے گا اور ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔
اپنی سیلون پر چلنے والے ٹی وی کے ذریعے جیسے ہی اس نے سنا کہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اساتذہ کے اسکولوں میں طلبا پر تشدد کے خلاف ایک قرار داد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور بھی کر لیا گیا، وہ خوشی سے بول اٹھا ”بہت اچھی خبر ہے چلو اب بچے اسکول جاتے ہوئے نہیں ڈریں گے۔ ٹیچر سے پٹنے کا خوف ہی ہمیں بھی تعلیم سے دور کرگیا اور ہم نے وقت سے پہلے ہی قینچی اور استرا اٹھالیا۔“
وائس آف امریکہ کے نمائندے کی دلچسپی بھانپتے ہوئے رضا نے مزید بتایا کہ وہ ضلع بھکر پنجاب کا رہنے والا ہے۔ دوسری کلاس میں تھا کہ ٹیچر کی سختی، ڈانٹ ڈپٹ اور مار پٹائی کے خوف سے وہ گاؤں کا اسکول ہی نہیں علاقے کو بھی چھوڑ کر ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گیا ۔ چچا کی دکان پر بال کاٹنے کا کام سیکھا۔ آصف نامی ایک استاد سے جس نے اس کے نام کے آگے ”رضا“ کا اضافہ کردیا۔ اب سب محمد رمضان کے بجائے اسے رضا پکارتے ہیں۔
رضا پچھلے 12سال سے کراچی میں مقیم ہے لیکن یہاں آکر اسے سب سے زیادہ جس چیز کا پچھتاوا ہوتا ہے وہ اپنی تعلیم ہے۔ رضا کا کہنا ہے کہ اس کے ذہن میں ٹیچر کے ہاتھوں تشدد کا خوف بیٹھ گیا تھا اس لئے وہ اسکول سے بھاگ گیا۔
پاکستان کا ایک نجی ٹی وی چینل ”جیو “رضا جیسے سینکڑوں اور ہزاروں اسکول نہ جانے والے بچوں، خاص کر پٹائی کے خوف سے اسکول سے بھاگ جانے والے بچوں کے حوالے سے ایک پروگرام پیش کررہا ہے جس کا نام ہے ”چل پڑھا“۔
’چل پڑھا ‘کے روح رواں پاپ سنگر شہزاد رائے ہیں۔ ” چل پڑھا “میں انہوں نے ملائکہ نامی ایک بچی کا کیس اٹھایا ہے جس میں اس کے استاد نے اس بچی پر قلم پھینکا جو بچی کی آنکھ پر جالگا جس سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔
اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف فوراً حرکت میں آئے اوراعلان کیا کہ سرکاری اسکولوں میں طلبا پر تشدد کر نے والے اساتذہ کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ یقین بھی دلایا کہ حکومت پنجاب اس حوالے سے بہت جلد قانون سازی بھی کرے گی۔
پنجاب کے ساتھ ساتھ جمعرات کو سندھ حکومت بھی حرکت میں آگئی جس کے بعد آج ہی سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اساتذہ کے اسکولوں میں طلبا پر تشدد کے خلاف قرار داد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
قرار داد کی منظوری کے بعد شہزاد رائے نے فون پر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ، ’’اس قرار داد کی منظوری کا کریڈٹ کسی ایک فرد یا کسی ایک ادارے کو نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کو جاتا ہے۔ بالخصوص ان سیاستدانوں کو جنھوں نے فوراً اس واقعے کا نوٹس لیا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ” مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس پروگرام کی وجہ سے اتنی جلدی اس معاملے کا نوٹس لے لیا جائے گا۔“
شہزاد نے وی او اے کو بتایا کہ انھوں نے اپنے ٹی وی شو ”چل پڑھا“ میں یہ دکھایا ہے کہ گورنمنٹ اسکولوں میں بچوں کو کس طرح مارا پیٹاجاتا ہے اور جو لوگ اپنے بچوں سے پیار کرتے تھے انھوں نے اس کا فوراً نوٹس لیا۔ اس معاملے میں تمام لوگوں نے ایک ساتھ ری ایکشن دکھایا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس ایشو پر اچھے اور برے تمام لوگ ایک ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے استفسار پر شہزاد رائے نے بتایا کہ اس قرار داد کی منظوری کے بعد وہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لئے بہت زیادہ پر امید ہیں۔انھوں نے بتایا ”میں تو اپنی تنظیم ”زندگی “کے ذریعے گورنمنٹ اسکولوں کو ٹھیک کر نے کا کام کر رہا ہوں اور چونکہ میں خود تعلیمی ماہر نہیں لہٰذا میں نے تو صرف جو گورنمنٹ اسکولوں میں دیکھا اور جو میرا تجربہ تھا وہ ایک آرٹسٹ ہونے کے ناطے میڈیا میں پیش کیا ہے ۔“
انکا کہنا تھا کہ ہماری تنظیم کا فوکس صرف گورنمنٹ اسکول ہیں کیونکہ اگر سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نظام بہتر ہو گاتو پورے پاکستان کا نظام بہتر ہو جائے گا اور ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔