ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان تیسری مرتبہ صدارتی الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر ماضی کے مقابلے میں معمولی برتری سے جیتے جانے والے اس الیکشن کے بعد کئی چیلنجز ان کے منتظر ہیں۔
الیکشن جیتنے کے بعد انقرہ میں صدارتی محل کے باہر موجود ہزاروں پرجوش حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایردوان نے اپیل کی کہ قوم کو اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ایردوان کو اپنے مدِمقابل حزبِ اختلاف کے اُمیدوار کمال کلیچ اولو کی جانب سے بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہی وجہ تھی کہ 14 مئی کو ہونے والے الیکشن میں کسی بھی فریق کو واضح برتری نہ ملنے پر 28 مئی کا دوبارہ الیکشن ہوا۔
صدر ایردوان نے 52.1 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں جب کہ ان کے مقابل امیدوار اور حزبِ اختلاف کے رہنما اولو کو 47.9 فی صد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہو سکی۔
سیاسی تقسیم بڑھنے کے خدشات
صدر ایردوان کے ناقدین کہتے ہیں کہ قوم پرست، قدامت پسند اور مذہبی ووٹرز کو استعمال کرنے کے بعد ایردوان اپنی طرزِ سیاست کو مزید بڑھاوا دیں گے۔
ترک سیاست اور معاشرت پر تحقیق کرنے والے ادارے یوریشیا گروپ کنسلٹنسی کے ایمرے پیکر کہتے ہیں کہ ترکیہ میں سیاسی تقسیم مزید بڑھے گی۔
اُن کے بقول 2002 سے ترکیہ کے سیاسی منظر نامے میں چھائے ہوئے ایردوان نے انفراسٹرکچر اور تعمیراتی شعبے میں ترقی کے ذریعے بہت مقبولیت حاصل کی۔ لیکن مہنگائی اب 40 فی صد سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے اُن کی مقبولیت میں بھی آئی۔
معاشی چیلنجز
ماہرین کے بقول ایردوان کی جانب سے شرح سود کم رکھنے کے غیر روایتی فیصلوں سے بینکوں کے کرنسی ذخائر پر دباؤ آئے گا اور یہی وجہ ہے کہ پیر کو ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر میں کمی آئی ہے۔
ایسٹ مینجمنٹ کمپنی 'بلیو بے' کے ٹموتھی ایش کہتے ہیں کہ معیشت سے متعلق ایردوان کا موجودہ بندوبست زیادہ پائیدار نہیں ہے۔
اُن کے بقول ایردوان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مرکزی بینک نے لیرا کی قدر کو مضبوط رکھنے کے لیے دسیوں ارب ڈالرز مارکیٹ میں جھونک دیے ہیں۔
ٹموتھی ایش کہتے ہیں کہ اگر ایردوان نے شرح سود کے معاملے پر 'یو ٹرن' نہ لیا تو ملک کی معاشی صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ترکیہ کو ایسے وقت میں معاشی بحران کا سامنا ہے جب فروری میں ملک کے جنوبی حصوں میں آنے والے زلزلے نے تباہی مچا دی تھی۔ اس زلزلے میں 50 ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے تھے جب کہ کئی شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔
ایردوان پر ناقدین نے یہ تنقید بھی کی تھی کہ وہ زلزلے کے بعد کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے زیادہ مؤثر حکمتِ عملی سامنے نہیں لا سکے تھے۔
زلزلے کی وجہ سے لاکھوں شہری اپنے ذریعہ معاش سے محروم ہو گئے تھے جس کی وجہ سے ترکیہ کے گروتھ ریٹ پر بھی منفی اثر پڑا تھا جب کہ لگ بھگ 100 ارب ڈالرز کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
سفارتی تعلقات میں توازن
امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن، ایردوان کو الیکشن جیتنے پر مبارک باد دینے والوں میں شامل تھے۔ لیکن 69 سالہ ایردوان کو دوبارہ منتخب ہونے پر سفارتی محاذ پر بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔
نیٹو کے شراکت دار انقرہ کی جانب سے سوئیڈن کی اتحاد میں شمولیت کے منتظر ہیں جس کے لیے ترکیہ کی منظوری باقی ہے۔
ایردوان نے اس منظوری کو یہ کہہ کر التوا میں ڈال دیا تھا کہ سوئیڈن ترکیہ کی حزبِ اختلاف کی شخصیات کو پناہ دے رہا ہے جو اس کے بقول کرد عسکریت پسندوں سے رابطے میں ہیں۔
ماہرین کے مطابق ترکیہ کے لیے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ اپنے مفاد کے لیے روس اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھے۔
ترکیہ کی جانب سے شام کی خانہ جنگی میں باغیوں کا ساتھ دینے کے معاملے پر شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ اس کے تعلقات میں تناؤ برقرار رہنے کا امکان ہے۔
حال ہی میں روس کی ثالثی میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی کوششیں بھی بے نتیجہ رہی تھیں۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی" سے لی گئی ہیں۔