ترکیہ میں صدارتی انتخابات کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں صدر رجب طیب ایردوان نے کامیابی حاصل کر لی ہے جو ان کے اقتدار کی تیسری دہائی کا آغاز ہے۔
اتوار کو ترکیہ میں صدارتی انتخابات کے رن آف مرحلے کے لیے ووٹنگ ہوئی جس میں پانچ کروڑ 21 لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے۔ ووٹنگ ٹرن آؤٹ 85.71 فی صد رہا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق الیکشن کمیشن کے اعداد و شمارکے مطابق صدر ایردوان نے 52.1 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں جب کہ ان کے مقابل امیدوار اور حزبِ اختلاف کے رہنما کمال کلیچ دار اولو کو 47.9 فی صد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہو سکی۔
کمال کلیچ دار اولو نے ان انتخابات کو غیر منصفانہ الیکشن قرار دیا تاہم انتخابی نتائج سے اختلاف نہیں کیا۔
ترکیہ کے میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کلیچ دار اولو نے رات گئے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ان کے قومی اتحاد کی جمہوریت کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔
مقامی اخبار ’حریت‘ کی رپورٹ کے مطابق کمال کلیچ دار اولو نے مزید کہا کہ وہ عوام کے حقوق پامال ہونے پر کبھی بھی خاموش نہیں رہیں گے۔
ان کے بقول وہ اس بات کو کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے کہ لاکھوں پناہ گزینوں کے ترکیہ آجانے کے بعد یہاں کے شہریوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے۔
انہوں نے انتخابات میں اصل ہیرو نوجوانوں اور خواتین کو قرار دیا۔
خیال ہے ان انتخابات کو صدر ایردوان کے لیے ان کے سیاسی کریئر کا مشکل ترین مرحلہ قرار دیا جا رہا تھا کیوں کہ ترکیہ کے معاشی حالت خراب ہوتے جا رہے ہیں جب کہ افراطِ زر سے لوگوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رجب طیب ایردوان کے مخالفین ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کے دوبارہ انتخاب کے بعد وہ اسی پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھیں جس کے تحت انہوں نے اپنے اختیارات میں اضافہ کیا اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا۔ ایردوان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
اپنی کامیابی کے بعد دارالحکومت انقرہ میں حامیوں سے خطاب میں رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ وہ عہد کرتے ہیں کہ تمام تنازعات کو پیچھے چھوڑ اپنی اقدار کے مطابق قوم کو متحد کریں گے۔
اس کے ساتھ انہوں نے اپنے مخالف امیدوار پر اس تقریر میں تنقید بھی کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ کمال کلیچ دار اولو نے دہشت گردوں کی حمایت کی۔
رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ کردوں کی جماعت کے سابق رہنما صلاح الدین دیمرتش کو، جنہیں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے، ان کی حکمرانی میں رہائی ملنا ممکن نہیں ہے۔
ان کے بقول ترکی کا سب سے فوری مسئلہ افراطِ زر ہے۔
اس سےقبل انہوں نے استبول میں اپنےحامیوں سے خطاب کیا تھا۔ جہاں انہوں نے کہا کہ آج کے انتخابات میں صرف ترکیہ کی فتح ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے ان کو مزید پانچ برس کے لیے ملک کی حکمرانی کے لیے منتخب کیا۔
خیال رہے کہ 1923 میں سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک نے جدید ترکیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ایردوان جدید ترکیہ میں سب سے طویل حکمرانی کرنے والے رہنما بن گئے ہیں۔
ایردوان کی جماعت اے کے پارٹی اسلامی نظریات رکھنے والی جماعت کہلاتی ہے۔ اس کو ملک کے قدامت پسند طبقات کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق رجب طیب ایردوان کی صدارتی انتخابات میں کامیابی اور کلیچ دار اولو کی ناکامی نیٹو میں شامل ترکیہ کے اتحادیوں کے لیے بھی کسی حد تک پریشانی کا سبب ہوگی کیوں کہ ایردوان کے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صدر پوتن نے ایردوان کو انتخابات میں کامیابی کا پیغام دیتے ہوئے ’میرے عزیز دوست‘ کے الفاظ استعمال کیے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنے نیٹو اتحادی کے ساتھ مشترکہ امور پر باہمی طور اور بین الاقوامی چیلنجز پر پیش رفت کے خواہاں ہیں۔
واضح رہے کہ نیٹو کے رکن ترکیہ نے سوئیڈن کی اس اتحاد میں شمولیت پر اعتراض کیا ہے۔ ترکیہ کی منظوری کے بغیر سوئیڈن نیٹو کا رکن نہیں بن سکتا۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے بھی ایردوان کو کامیابی پر مبارک باد دی۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس اور ترکیہ کو کئی ایسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن کا مقابلہ ان کو مشترکہ طور پر کرنا ہے۔
ایران، سعودی عرب اور اسرائیل کے رہنما بھی ایردوان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارک باد دینے والوں میں شامل ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ایردوان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارک باد دی۔
اس رپورٹ میں کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔