ایران میں حکام نے جمعرات کو ایک شخص کو بڑے ہجوم کے سامنے سرعام پھانسی دی ہے۔ انسانی حقوق کے ایک گروپ نے اسے قرون وسطی،کا عمل کہتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے ۔لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ، عوام پر دباؤ ڈالنے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے پھانسیوں میں اضافے کااشارہ دے رہا ہے۔
ناروے میں قائم انسانی حقوق کے ایک گروپ ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے جرم میں اس شخص کو مشرقی آذربائیجان کے شمال میں واقع ایرانی صوبے کے شہر مراغہ میں پھانسی دی گئی۔
آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے کہا، بین الاقوامی برادری قرون وسطی کی ایسی سزاؤں کی توثیق نہیں کر سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پھانسی ،ایسی حکومت کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرتی ہے جو ظلم، تذلیل اور معاشرے کو دھمکیوں کے ساتھ اپنے دور حکومت کو طول دینے کی کوشش کرتی ہے۔
ایرانی نیوز ویب سائٹس پر پوسٹ کی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینکڑوں لوگ پھانسی کو دیکھنے کے لیے جمع تھے، لیکن انہیں ایک فاصلے پر لگائی گئی حفاظتی ٹیپ کے پیچھے کھڑا رکھا گیا ۔اس دوران استغاثہ نے صحافیوں سے خطاب کیا۔
ایک تصویر میں پھانسی پانے والے شخص کو آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے دکھایا گیا تھا وہ سیاہ لبادے پہنے دو جلادوں کے ساتھ کھڑا تھا ۔دوسری تصویر میں اسے پھانسی سے پہلے ایک کرسی پر کھڑا دکھایا گیا تھا ۔اس کے گلے میں پھندا تھا جس کی رسی ایک کرین سے جڑی ہوئی تھی۔
تقریباً پانچ سال قبل گرفتار کیے جانے والےشخص کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ۔اسے خواتین کے ساتھ تعلقات سے متعلق الزامات کا مجرم قرار دیا گیا تھا لیکن مبینہ جرائم کی مخصوص نوعیت فوری طور پر واضح نہیں کی گئی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق چین کے علاوہ، ایران میں کسی بھی ملک کے مقابلے میں ہر سال زیادہ لوگوں کو پھانسی دی جاتی ہے، لیکن سرعام پھانسی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے،اور زیادہ تر پھانسیاں قید خانوں کے اندر ہی دی جاتی ہیں۔
آئی ایچ آر کے مطابق، 2021 میں سرعام کوئی پھانسی نہیں دی گئی۔
جولائی 2022 میں، شیراز شہر میں ، ایک پولیس اہل کار کے قتل کے مرتکب شخص کو سرعام پھانسی دی گئی اور دسمبر میں مشہد شہر میں محسن راہنورد کو پھانسی دی گئی، جس نے حالیہ حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لیا تھا اور اسے ملیشیا کے ایجنٹوں کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
لیکن تازہ ترین پھانسی کا واقعہ ، خاص طور پر غیر معمولی ہے کہ یہ دن کے وقت میڈیا کی موجودگی میں بڑے ہجوم کے سامنے عمل میں لایا گیا۔ 2022 میں دونوں پھانسیاں بظاہر ،طلوع آفتاب سے پہلے سرعام دی گئی تھیں لیکن ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔
ایران میں حال ہی میں پھانسی کی سزاؤں میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بارے میں انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد عوام کو خوفزدہ کرکے انہیں مظاہروں میں شرکت سے روکنا ہے جو ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے ۔
مہسا امینی کو لباس سے متعلق ملک کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتارکیا گیا تھا اور وہ حراست کے دوران ہلاک ہو گئیں تھیں ۔پولیس مہسا امینی پر کسی قسم کے تشدد سے انکار کرتی ہے ،لیکن عوام میں اس 22 سالہ کرد خاتون کی بے رحمانہ ہلاکت پر شدید غصہ تھا ،جو ملک گیر مظاہروں کی شکل میں سامنے آیا ۔
حکومت نے اس احتجاج کو طاقت سے کچلنےکی کوشش کی ،اس دوران ،ایران ہیومن رائیٹس کے مطابق 278 افراد کو موت کی سزائیں دیں گئیں۔
7 افراد کو مظاہروں میں شرکت کے جرم میں پھانسیاں دی گئیں ہیں،جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے متنبہ کیا ہے کہ مزید 7 افراد کو پھانسی پر چڑھانے کا امکان ہے۔
(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)