رسائی کے لنکس

شیخ حسینہ کو خاموش رہنے کی تنبیہ؛ کیا بنگلہ دیشی حکومت کا بھارت کے لیے پیغام ہے؟


نوبیل انعام یافتہ محمد یونس شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر بنے تھے۔
نوبیل انعام یافتہ محمد یونس شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر بنے تھے۔

  • بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے بھارت میں موجود شیخ حسینہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
  • بھارتی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں محمد یونس کا کہنا ہے کہ اپنی بنگلہ دیش کو حوالگی تک شیخ حسینہ کو خاموش رہنا چاہیے۔
  • شیخ حسینہ اب وزیر اعظم نہیں ہیں، وہ مفرور ہیں: محمد یونس
  • شیخ حسینہ نے 13 اگست کو ایک بیان میں بنگلہ دیشی حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔
  • محمد یونس، شیخ حسینہ کے بیان پر خاموش رہتے تو ان کے ملک میں سوال اٹھتا: سینئر تجزیہ کار نیلوفر سہروردی

نئی دہلی -- بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ اور نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے بھارت سے کیے جانے والے سیاسی تبصرے غیر دوستانہ ہیں۔ ان کے بیانات سے بنگلہ دیش میں اضطراب ہے۔

ڈھاکہ میں اپنی رہائش گاہ پر بھارتی خبر رساں ادارے 'پریس ٹرسٹ آف انڈیا' (پی ٹی آئی) کو دیے گئے انٹرویو میں محمد یونس نے کہا کہ جب تک ڈھاکہ نئی دہلی سے شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست نہیں کرتا، انھیں دونوں ملکوں کو پریشانی میں ڈالنے سے بچنا چاہیے۔

محمد یونس کا کہنا تھا کہ ان کے بیانات نہ تو بھارت کے لیے ٹھیک ہیں اور نہ ہی بنگلہ دیش کے لیے۔ انھیں بنگلہ دیش واپس لانا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی ہے۔

محمد یونس کا کہنا تھا کہ حوالگی کی درخواست تک بھارت شیخ حسینہ کو اپنے یہاں رکھنا چاہتا ہے تو رکھے۔ اس دوران شیخ حسینہ کو خاموش رہنا ہو گا۔ لیکن وہ بیانات دے رہی ہیں جو پریشان کن ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں بھارت میں پناہ دی گئی ہے اور وہ وہاں سے مہم چلا رہی ہیں۔ وہ عام حالات میں وہاں نہیں گئی ہیں۔ وہ عوامی انقلاب اور ناراضی کی وجہ سے فرار ہوئی ہیں۔

ان کے بیان پر بھارت کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

واضح رہے کہ شیخ حسینہ نے 13 اگست کو ایک بیان دیا تھا جس میں انھوں نے بنگلہ دیش کی حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ جو لوگ دہشت گردانہ کارروائیوں اور لوٹ مار میں ملوث رہے ہیں ان کی تحقیقات کر کے انھیں سزا دی جائے۔

ان کا یہ بیان بنگلہ زبان میں تھا جسے امریکہ میں مقیم ان کے بیٹے سجیب واجد جوائے نے اپنے ایکس (سابق ٹوئٹر) ہینڈل سے جاری کیا تھا۔ محمد یونس نے انٹرویو میں اسی بیان کا حوالہ دیا ہے۔

بیان میں شیخ حسینہ نے کہا تھا کہ جولائی سے جاری تشدد کے دوران متعدد طلبہ، اساتذہ، پولیس جوانوں، صحافیوں، سیاست دانوں، عوامی لیگ سے وابستہ کارکنوں اور عام لوگوں کو اپنی جانیں گنوانا پڑی ہیں۔ انھوں نے ان ہلاکتوں پر اپنے رنج و غم کا اظہار کیا تھا۔

یاد رہے کہ کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کے نتیجے میں جنم لینے والی بغاوت کے سبب شیخ حسینہ کو پانچ اگست کو ڈھاکہ سے فرار ہو کر بھارت آنا پڑا تھا۔ بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ شیخ حسینہ نے انتہائی قلیل وقت میں بھارت آنے کی درخواست کی تھی۔

ان کا طیارہ دہلی کے نزدیک غازی آباد میں واقع ہنڈن ایئربیس پر اترا تھا جہاں انھیں محفوظ مقام پر رکھا گیا۔ میڈیا میں چند روز تک ان کے بارے میں خبریں شائع ہوتی رہیں لیکن اب یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت میں ان کی حیثیت پناہ گزیں کی نہیں بلکہ ایک مہمان کی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ خبریں آئی تھیں کہ وہ برطانیہ، متحدہ عرب امارات یا قطر میں پناہ لے سکتی ہیں۔ لیکن رپورٹس کے مطابق ان ملکوں میں ان کی پناہ حاصل کرنے کی کوششیں بے نتیجہ رہیں۔ امریکہ نے ان کا سفارتی پاسپورٹ رد کر دیا ہے۔

'یہ بیان عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہے'

سینئر تجزیہ کار نیلوفر سہروردی کا کہنا ہے کہ محمد یونس کے بیان کو دو تین طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کا یہ بیان اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہے۔ کیوں کہ اگر وہ شیخ حسینہ کے بیان پر خاموش رہتے تو ان کے ملک میں سوال اٹھتا۔ مزید برآں یہ کہ اگر حسینہ خاموش نہیں رہیں گی تو ان کے خلاف عوامی غصہ اور بھڑک سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ محمد یونس کے بیان کا ایک پیغام بھارت کے لیے بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے رشتوں میں کشیدگی نہیں چاہتے۔ اس لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر بھارت حوالگی تک ان کو رکھنا چاہتا ہے تو رکھے۔

ان کے بقول تیسری بات یہ ہے کہ محمد یونس یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا ہے اس کے بارے میں وہاں کی حکومت کارروائی تو کرے گی لیکن شیخ حسینہ کے کہنے پر نہیں کرے گی۔ یہ بنگلہ دیش کی حکومت کا معاملہ ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ کو بیان بازی سے بچنا چاہیے۔ نیلوفر سہروردی کا بھی یہی کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو کوئی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جو بھارت کی سفارت کاری کے لیے نقصان دہ ہو۔

محمد یونس کے بقول شیخ حسینہ اب وزیر اعظم نہیں ہیں، وہ مفرور ہیں۔ ان کی ہدایت پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ ان کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ جو کہیں گی بنگلہ دیش کی حکومت وہ کرے گی۔

'بھارت، بنگلہ دیش رشتے کمتر سطح پر ہیں'

محمد یونس نے بھارت اور بنگلہ دیش کے باہمی رشتوں کے بارے میں کہا کہ وہ کمتر درجے پر پہنچ گئے ہیں۔ دونوں کو انھیں بحال کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے تعلقات کیسے رہیں گے تو انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ باہمی رشتوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لیکن بھارت کو اس بیانیے سے اوپر اٹھنا ہوگا کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے علاوہ ہر سیاسی پارٹی 'اسلامسٹ' ہے۔

ان کے مطابق بھارت کو یہ خیال چھوڑنا ہو گا کہ بنگلہ دیش کا ہر شخص 'اسلامسٹ' ہے جو بنگلہ دیش کو افغانستان بنا دے گا اور یہ کہ جب تک شیخ حسینہ اقتدار میں ہیں بنگلہ دیش محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ کسی بھی دوسرے ملک کے مانند بنگلہ دیش بھار ت کا ہمسایہ ملک ہے۔

ڈھاکہ یونیورسٹی، جہاں سے بنگلہ دیش میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا
please wait

No media source currently available

0:00 0:11:05 0:00

انھوں نے مزید کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان مخصوص معاہدوں اور راہداری اور اڈانی الیکٹری سٹی معاہدے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ کاغذ پر کیا ہے اور زمینی سچائی کیا ہے۔ میں خاص طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر نظر ثانی کی ضرورت ہوئی تو ہم ان معاہدوں پر ضرور سوال اٹھائیں گے۔

اڈانی پاور لمٹیڈ نے چھ اگست کو ایک بیان میں کہا تھا کہ کمپنی معاہدے کے مطابق بلا روک ٹوک بنگلہ دیش کو بجلی سپلائی کر رہی ہے۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق یہ معمول کا بزنس ہے۔ بنگلہ دیش پاور ڈیولپمنٹ بورڈ (بی پی ڈی بی) اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق بجلی لے رہا ہے اور کمپنی سپلائی کر رہی ہے۔

اڈانی پاور لمٹیڈ اور بی پی ڈی بی کے درمیان جون 2023 میں یہ معاہدہ ہوا تھا۔

نیلوفر سہروردی کہتی ہیں کہ شیخ حسینہ کے زمانے میں دونوں ملکوں کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کافی اونچائی پر گئے۔ لیکن بہت سے لوگ اس کے خلاف بھی رہے ہیں کہ بنگلہ دیش نے بھارت کو کچھ زیادہ ہی رعایتیں دی ہیں۔

ان کے بقول وہاں کی نئی حکومت کو ابھی چار ہفتے ہوئے ہیں۔ اسے حالات کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔ محمد یونس پہلے اپنے عوام کے مفادات پر توجہ دیں گے اور چاہیں گے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات کا وہاں کے عوام پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دونوں ملک بہت اہم تجارتی شراکت دار ہیں۔ دونوں میں اسٹریٹجک رشتے بھی ہیں۔ برآمدات کے نقطۂ نظر سے دونوں ایک دوسرے کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس لیے حکومت ان رشتوں میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں آنے دے گی۔ تاہم آئندہ کے دونوں کے رشتوں کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

بنگلہ دیش میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر پناک رنجن چکرورتی نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حسینہ حکومت کے خاتمے سے بھارت کو ہونے والے نقصان کا تاثر رد کرنے کے لیے بھارت کو سخت محنت کرنا ہو گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پڑوس میں کوئی بھی اتھل پتھل ہو وہ ایک دھچکہ ہے۔ نئی دہلی کو ڈھاکہ کی عبوری حکومت کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور آپ یہ ہدایت نہیں کر سکتے کہ اسے اپنے اندرونی معاملات میں کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG