رسائی کے لنکس

وائرس کے ذریعے بچوں میں دماغی کینسر کے علاج کا نیا طریقہ


کینسر کے ایک مریض کو ریڈی ایشن دی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو
کینسر کے ایک مریض کو ریڈی ایشن دی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو

امریکی سائینسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچوں کے دماغ میں ٹیومر کی ایک مخصوص قسم کے علاج کا ایک نیا اور غیر معمولی طریقہ استعمال کیا ہے، جس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

"گلی اومس" نام کے اس ٹیومر کے علاج کے لئے متاثرہ بچوں کے دماغ میں ایک خاص قسم کے وائرس کی لاکھوں کاپیاں براہ راست داخل کی جاتی ہیں، جس سے ٹیومر کمزور ہو جاتا ہے، اور قوت مدافعت بھرپور انداز سے متحرک ہوتی ہے، جس سے ٹیومر مکمل طور پر ختم کرنے کا امکان زندہ ہو گیا ہے۔

"گلی اومس" کہلانے والا یہ ٹیومر بچوں کے دماغ میں ہونے والے آٹھ سے دس فیصد کینسر کے کیسز کا زمہ دار ہے۔

امیرکن ایسوسی ایشن فار کینسر ریسرچ اور نیو انگلینڈ جرنل فار میڈیسن میں چھپنے والی ایک تازہ ترین تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کا اس طرح علاج کیا گیا وہ ایسے ہی دیگر مریضوں کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک زندہ رہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس ٹیومر کا شکار زیادہ تر بچے اس مرض سے ہلاک ہو گئے مگر اس طریقہ علاج سے صحت مند ہونے کے کئی برسوں تک کئی بچے زندہ بھی رہے۔ ٹیومر کی اس خاص قسم کے ساتھ ایسا ہونا بالکل ناممکن سمجھا جاتا ہے۔

امریکہ کی ایلاباما یونیورسٹی میں بچوں کے کینسر کے ماہر گریگوری فرایڈ مین نے خبر رساں ایجنسی اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس بیماری کے علاج کے سلسلے میں پہلا اور بہت ہی اہم قدم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف اس طریقہ علاج کو بہتر بنانا ہے۔

اس تحقیق میں ’گلی اوماس‘ قسم کے ٹیومر پر تجربات کئے گئے۔ متاثرہ بچوں کا علاج عموماً سرجری، کیموتھراپی یا ریڈی ایشن سے کیا جاتا ہے مگر جب یہ ٹیومر دوبارہ نمودار ہو جائے تو اس کے بعد ایسے مریضوں کی زندگی عموماً چھ ماہ تک ہی ہوتی ہے۔

ایسی صورتحال میں جسم کی قوتِ مدافعت کینسر کو شناخت کرنے کی قابلیت کھو دیتی ہے۔ اس لیے سائنسدان ایسے طریقے ڈھونڈ رہے تھے جن میں جسم کی قوت مدافعت دوبارہ متحرک ہو اور ٹیومر کو نئے سرے سے نشانہ بنائے۔

اس مقصد کے لیے سائنسدانوں نے ’ہرپیز‘ وائرس کا انتخاب دیا، جس کے جسم میں داخل کرنے سے جسم کا مدافعتی نظام بھرپور انداز سے حرکت میں آتا ہے۔ امریکی ریاست فلاڈیلفیا کی ایک کمپنی ’ٹریوئیر‘ نے اس مقصد کے لیے وائرس میں جینیاتی تبدیلیاں پیدا کیں، جس کے بعد وائرس صرف ٹیومر کے خلیوں کو نشانہ بناتا ہے۔ ایسے وائرس کی لاکھوں نقول اس مقصد کے لیے تیار کی گئیں۔

سائنسدانوں نے ننھی ٹیوبز کے ذریعے یہ وائرس ایک درجن مریضوں کے ٹیومر میں داخل کیا جن کی عمریں 7 سے 18 برس کی تھیں۔ ان مریضوں کا ٹیومر علاج کے باوجود بگڑ چکا تھا اس لیے انہیں دوسرے طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ تجرباتی طور پر اس علاج سے بھی گزارا گیا۔ ان بچوں میں سے آدھے بچوں کو ریڈی ایشن سے بھی گزارا گیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس کے پھیلنے میں مددگار ہو سکتی تھی۔

محققین کے مطابق ان میں سے گیارہ بچوں کے پٹھوں کے نمونوں کے معائنے سے پتہ لگا کہ یہ طریقہ علاج کام کر رہا ہے۔ ان بچوں کی زندگی اسی ٹیومر کا شکار ان بچوں سے چھ ماہ زیادہ تھی، جو اس طریقہ علاج سے نہیں گزرے تھے۔ پچھلے برس جون میں جب اس طریقہ علاج کے بارے میں جائزہ رپورٹ مرتب کی جا رہی تھی، اس مخصوص ٹیومر کا شکار 4 بچے علاج کے 18 ماہ بعد بھی صحت مند اور حیات تھے۔

سائسندانوں کا کہنا ہے کہ تجربات سے معلوم ہوا ہے ان بچوں کے ٹیومر میں انتہائی اعلی درجے کے ماہر مدافعتی خلیے موجود تھے، جس کا مطلب ہے کہ علاج کے ذریعے جسم سے جس قسم کی مدافعتی مدد درکار تھی، یہ علاج اسے حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

رپورٹ کے مطابق، ان بچوں میں اس علاج کے بعد سنگین نوعیت کے مضر اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔ تاہم معمولی نوعیت کے مضر اثرات نظر آئے، جن میں تھکن، الٹیاں، پیٹ خراب ہونا وغیرہ شامل تھے۔

فرائڈمین کا کہنا ہے کہ بالغ افراد کے ٹیومر کا علاج اس طریقہ کار کے ذریعے کرنے پر تحقیق جاری ہے، اس کے علاوہ اس طریقہ کار کے ذریعے بچوں کے دوسرے قسم کے ٹیومر کا علاج کرنے پر بھی تحقیق شروع کرنے کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG