پاکستان کی جیلوں میں قید ایسی خواتین ، جن کے بچے چھوٹے ہیں، انہیں بچے اپنے ساتھ سلاخوں کے پیچھے رکھنے کی اجازت ہے۔ اور بعض دفعہ یہ دورانیہ کئی برسوں تک پھیل جاتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اس طریقہ کار سے بچوں کو تحفظ تو مل جاتا ہے ، لیکن اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں خوف بیٹھ سکتا ہے۔
کراچی کی جیل میں موجود محب کی عمر پانچ سال ہے اور اس کی آدھی زندگی جیل میں اپنی ماں کے ساتھ گذری ہے۔ محب کی والدہ، جس پر قتل کاالزام ہے، اپنے بیٹے کو ڈھائی سال قبل جیل اپنے ساتھ لائی تھی۔
سحر بی بی کا کہناہے کہ اس کا بیٹا باہر آزاد فضا میں رہ سکتا ہے لیکن وہاں اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
اس کا کہناہے کہ بچے کو جیل میں رکھنا اچھی بات نہیں ہے کیونکہ بچہ کھلنا کودنا اور گھومنا پھرنا چاہتا ہے اور وہ پڑھائی کے لیے باہر جانا چاہتاہے۔
اکثر اوقات جیل میں قید مائیں بچوں کے تحفظ سے متعلق سرکاری پروگرام پر بھروسہ نہیں کرتیں۔
انسانی حقوق کے امور کی پاکستانی وزارت کے سربراہ محمد حسن مانگی کہتے ہیں کہ اس فیصلے کا خمیازہ بچے بھگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں بچے کی نفسیات اور دماغی نشوونما کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے کہ اسے جیل کے اندرپروان چڑھایا جائے، کیونکہ اس کا بچے کی نفسیات اور سماجی زندگی پر اثرات طویل عرصےتک قائم رہتے ہیں۔
بچے کی دیکھ بھال کا پروگرام ترتیب دیتے وقت ماں سے درمندی کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ پانچ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد بچوں کو جیل چھوڑنا ہوتی ہے۔
لیکن مسکان، جس کی عمر سات سال ہے ، ڈھائی سال سے جیل میں رہ رہاہے۔
اس کی والدہ یاسمین بی بی اغوا کے جرم میں قید کاٹ رہی ہے۔ اس کا کہناہے کہ مسکان جیل میں اس کے ساتھ زیادہ بہتر حالات میں رہ رہاہے۔ وہ کہتی ہے کہ ہم باہر کے ماحول میں اپنے بچوں کو اس طرح تحفظ نہیں دے سکتے ، جیسا کہ انہیں یہاں میسر ہے۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن انیس جیلانی کہتے ہیں کہ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اگر بچے کو والد کے پاس بھیجا گیا تو وہ اسے بچپن میں شادی پر مجبور کرسکتا ہے اور بیٹی کو وہ بیچ بھی سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی وزارت کے مطابق پانچ جیلوں میں، جن کا سروے کر کے اعدادوشمار مرتب کیے گئے ہیں، 68 بچے اپنی ماؤں کے ساتھ رہ رہےتھے۔
لیکن اس بارے میں معلومات انتہائی محدود ہیں کہ ان میں سے کتنے وہاں رہے اور جن بچوں نے جیل چھوڑ دی تو پھر ان پر کیا بیتی۔
کراچی کی جیل میں موجود محب کی عمر پانچ سال ہے اور اس کی آدھی زندگی جیل میں اپنی ماں کے ساتھ گذری ہے۔ محب کی والدہ، جس پر قتل کاالزام ہے، اپنے بیٹے کو ڈھائی سال قبل جیل اپنے ساتھ لائی تھی۔
سحر بی بی کا کہناہے کہ اس کا بیٹا باہر آزاد فضا میں رہ سکتا ہے لیکن وہاں اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
اس کا کہناہے کہ بچے کو جیل میں رکھنا اچھی بات نہیں ہے کیونکہ بچہ کھلنا کودنا اور گھومنا پھرنا چاہتا ہے اور وہ پڑھائی کے لیے باہر جانا چاہتاہے۔
اکثر اوقات جیل میں قید مائیں بچوں کے تحفظ سے متعلق سرکاری پروگرام پر بھروسہ نہیں کرتیں۔
انسانی حقوق کے امور کی پاکستانی وزارت کے سربراہ محمد حسن مانگی کہتے ہیں کہ اس فیصلے کا خمیازہ بچے بھگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں بچے کی نفسیات اور دماغی نشوونما کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے کہ اسے جیل کے اندرپروان چڑھایا جائے، کیونکہ اس کا بچے کی نفسیات اور سماجی زندگی پر اثرات طویل عرصےتک قائم رہتے ہیں۔
بچے کی دیکھ بھال کا پروگرام ترتیب دیتے وقت ماں سے درمندی کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ پانچ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد بچوں کو جیل چھوڑنا ہوتی ہے۔
لیکن مسکان، جس کی عمر سات سال ہے ، ڈھائی سال سے جیل میں رہ رہاہے۔
اس کی والدہ یاسمین بی بی اغوا کے جرم میں قید کاٹ رہی ہے۔ اس کا کہناہے کہ مسکان جیل میں اس کے ساتھ زیادہ بہتر حالات میں رہ رہاہے۔ وہ کہتی ہے کہ ہم باہر کے ماحول میں اپنے بچوں کو اس طرح تحفظ نہیں دے سکتے ، جیسا کہ انہیں یہاں میسر ہے۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن انیس جیلانی کہتے ہیں کہ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اگر بچے کو والد کے پاس بھیجا گیا تو وہ اسے بچپن میں شادی پر مجبور کرسکتا ہے اور بیٹی کو وہ بیچ بھی سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی وزارت کے مطابق پانچ جیلوں میں، جن کا سروے کر کے اعدادوشمار مرتب کیے گئے ہیں، 68 بچے اپنی ماؤں کے ساتھ رہ رہےتھے۔
لیکن اس بارے میں معلومات انتہائی محدود ہیں کہ ان میں سے کتنے وہاں رہے اور جن بچوں نے جیل چھوڑ دی تو پھر ان پر کیا بیتی۔