چین اور بھارت نے اپنے سرحدی تنازعات کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور تعاون میں اضافہ کیا جاسکے۔
جمعے کو دارالحکومت بیجنگ میں بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے چین کے وزیرِاعظم لی کیچوانگ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات دنیا کا سیاسی توازن تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے قریب آنے سے عالمی سیاست اور معیشت کو متوازن کرنے اور ان کا رخ ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی۔
ملاقات کے بعد جاری کیے جانے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ملکوں نے فوجی سربراہان اور سرحدوں کی نگرانی پر مامور فوجی کمانڈروں کے سالانہ دوروں اور سرحدی تنازعات کے فوری حل کے لیے فوجی ہاٹ لائن کے قیام پر بھی اتفاق کیا ہے۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چین کے وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ اور ان کے بھارتی ہم منصب سمجھتے ہیں کہ سرحدی تنازعات کے حل کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے بڑھانا ہوں گے۔
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں موجود دونوں ملکوں کے درمیان سرحد 3500 کلومیٹر طویل ہے جس کی حد بندی سے متعلق تنازعات پر دونوں ملکوں کے درمیان 1962ء میں ایک مختصر جنگ بھی ہوچکی ہے۔
چین بھارت کی سرحدی ہمالیائی ریاست اروناچل پردیش کے 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل مشرقی علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے جسے چینی حکومت نے 'جنوبی تبت' کا نام دے رکھا ہے۔
اس کے برعکس بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین نے اس کے 38000 اسکوائر کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے جو چین کے مغربی علاقے اکسائی چِن میں شامل ہے۔
اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ انہوں نے چینی قیادت کے ساتھ اپنی بات چیت میں زور دیا ہے کہ وہ ان معاملات پر اپنے موقف پہ نظرِ ثانی کرے جو دونوں ملکوں کو قریب آنے سے روک رہے ہیں۔
مشترکہ بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ماحولیاتی تبدیلی اور اسے روکنے کے لیے مجوزہ اقدامات پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
چین اور بھارت دنیا کے دو گنجان ترین ملک ہیں اور دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے اعتبار سے بالترتیب پہلے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
مودی کے تین روزہ دورۂ چین کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان 20 سے زائد معاہدے ہوئے ہیں جن کی مالیت 10 ارب ڈالر سے زائد ہے۔