چین نے کہا ہے کہ تھائی لینڈ سے گزشتہ ہفتے ملک بدر کیے جانے والے ایغور نسل کے 109 افراد شدت پسند گروہ داعش میں شمولیت کے لیے ترکی، شام یا عراق جا رہے تھے۔
بیجنگ نے ان افراد کی ملک بدری پر امریکہ، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اس اقدام کا دفاع کیا ہے۔
ناقدین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان افراد کی چین واپسی پر انھیں سنگین ایذا رسانیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوآ چنینگ کا کہنا ہے کہ "جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے جعلی پاسپورٹ استعمال کرتے ہوئے کسی ملک جانا یا انسانی اسمگلنگ کا طریقہ اختیار کرنا عالمی سطح پر جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کی چین کو حوالگی بین الاقوامی میثاق اور دو ریاستوں کے درمیان باہمی معاہدے سے مطابقت رکھتی ہے۔"
وزارت خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نے ان افراد کی ملک بدری پر تنقید سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ سے باضابطہ طور پر احتجاج بھی کیا ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی "شینخوا" کے مطابق 109 ایغور میں سے 13 دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر چین سے فرار ہوئے تھے۔
سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی وڈیو میں بعض ایغور افراد کو چہرے ڈھانپ کر بٹھائے ہوئے دکھایا گیا جن کے ساتھ چین کے پولیس اہلکار بھی موجود ہیں۔
ایغور نسل سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت شمال مغربی خطے سنکیانگ میں آباد ہے اور یہ لوگ ترکی زبان بولنے والے مسلمان ہیں۔ یہ لوگ حکومت کی طرف سے مبینہ امتیازی سلوک کا شکوہ کرتے ہیں اور ہزاروں ایغور حالیہ برسوں میں یہاں سے نقل مکانی بھی کر چکے ہیں۔
تھائی لینڈ نے تقریباً ایک سال حراست میں رکھنے کے بعد گزشتہ ہفتے ایغور نسل کے 109 غیر قانونی تارکین وطن کو چین واپس بھیج دیا تھا۔