رسائی کے لنکس

افغان امن مذاکرات کی میزبانی کے لیے چین کی نئی پیشکش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چین نے متحارب افغان فریقوں کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ چین افغان تنازع کے مذاکراتی حل کی سفارتی کوششوں کو دوبارہ شروع کر رہا ہے۔

چین اور افغانستان کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وزیرِ خارجہ وینگ یی نے اپنے افغان ہم منصب محمد حنیف اتمر اور قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ مُحب سے امن مذاکرات کے لیے فون پر بات چیت کی ہے۔

وائس آف امریکہ کے لیے ایاز گُل کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ ماہرین کے نزدیک چین کی جانب سے افغان امن بات چیت کی میزبانی کی پیشکش، امریکہ کے زیرِ قیادت دیگر مغربی افواج کے انخلا کے بعد، خطے میں ایک اہم سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے اپنی پوزیشن بنانے کی کوشش ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کو یہ تشویش ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد، اس کا تباہ حال ہمسایہ ملک، افغانستان انتشار کا شکار ہو جائے گا اور مسلم عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل ہو جائے گا۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وینگ یی نے قومی سلامتی کے افغان مشیر حمد اللہ محب کو بتایا کہ چین، افغانستان کے مختلف فریقوں کے درمیان مذاکرات منعقد کروانے کیلئے تیار ہے، جس میں مذاکرات کیلئے درکار ضروری ساز گار فضا ہموار کرنا بھی شامل ہے۔

افغان خواتین صحافیوں کا امن مذاکرات کا حصہ بننے کا مطالبہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں ایک دائمی جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے اور انہوں نے ہدایات جاری کی تھیں کہ باقی 2500 کے قریب امریکی فوجی بھی 11 ستمبر تک افغانستان سے نکل آئیں گے، اور اس انخلا کا آغاز یکم مئی سے ہو گیا۔

نیٹو اتحادی بھی اس فیصلے کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی 7000 کے قریب افواج کا انخلا کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر افغان حکومت اور طالبان سے تشدد کو کم کرنے اور شراکت اقتدار کیلئے مذاکرات کے مطالبات کے باوجود، اتحادی افواج کا انخلا شروع ہونے سے، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے۔

چین دونوں فریقوں، طالبان اور افغان حکومت سے قریبی تعلقات رکھے ہوئے ہے۔
حالیہ دنوں میں چین کے وزیر خارجہ، وینگ یی کی جانب سے امریکہ پر یہ کہہ کر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے اپنی افواج کے انخلا میں جلد بازی سے کام لیا ہے۔ وینگ یی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام سے افغان امن کو نقصان پہنچا ہے اور خطے کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

چین کے وزیر خارجہ نے پیر کے روز حمد اللہ محب سے اپنی گفتگو میں اس تنقیدکو دہرایا، اور افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے پرامن انتقال اقتدار کے فروغ میں تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

وینگ یی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندرونی مصالحتی عمل کے اس نازک موڑ پر، امریکہ کی افواج کے یک طرفہ انخلا سے، بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے، تاہم امن کا قیام ہی وقت کا تقاضہ ہے۔

دونوں افغان فریقوں نے گزشتہ سال ستمبر میں، قطر میں منعقدہ براہ راست بات چیت کا آغاز کیا تھا۔ یہ مذاکرات، امریکہ اور طالبان کے درمیان افواج کے انخلا سے متعلق فروری سن 2020 میں ہونے والے معاہدے کا نتیجہ تھے۔ تاہم بین الافغان امن بات چیت زیادہ تر تعطل کا شکار رہی، اور دونوں فریقوں کو اس عمل میں تیزی لانے کی امریکی کاوشیں بے نتیجہ رہی ہیں۔

وینگ یی نے افغانستا ن کے وزیر خارجہ حنیف اتمر سے اپنی گفتگو میں تنازعے میں ملوث تمام فریقوں سے امن مذاکرات کے اچھے آغاز کیلئے ساز گار فضا تشکیل دینے پر زور دیا۔

وینگ یی کا کہنا تھا کہ چین کو امید ہے کہ افغانستان کی مستقبل کی قیادت اعتدال پسند اسلامی پالیسی اپنائے گی، امن پر مبنی خارجہ پالیسی کو فروغ دے گی، ہمسایہ ممالک سےدوستانہ تعلقات استوار کرے گی، اور ہر طرح کی دہشت گردی سے نمٹنے میں سختی سے کام لیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حمد اللہ محب نے وینگ یی سے کہا کہ طالبان کو امن بات چیت میں سنجیدگی کے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دینے کیلئے ہر طرح کے اثر و نفوذ سے کام لیا جائے گا۔

چین کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ گفتگو کے دوران حمد اللہ محب کا کہنا تھا کہ افغانستان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہے، اور اس میں ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ بھی شامل ہے، اور وہ چین کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی اور سیکیورٹی تعاون کو مزید ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے تیار ہے۔

افغان حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ گفتگو کے دوران وینگ یی اور حمد اللہ محب نے دہشت گردی کو ایک مشترکہ خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں فریق اس کے خلاف صف آرا رہیں گے۔

'امریکہ افغانستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے'
'امریکہ افغانستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے'

مشرقی ترکمانستان اسلامی تحریک کو چین ایک دہشت گرد گروپ گردانتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر چکا ہے۔ اس اسلامی تحریک کا کہنا ہے کہ وہ سنکیانگ کے رہنے والے ایغور مسلمانوں کے حقوق کیلئے کام کر رہی ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ چین نے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے نام پر، سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کےخلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔

XS
SM
MD
LG