واشنگٹن —
چین کی جانب سے امریکی صدر براک اوباما کے اُس بیان پر شدید تنقید سامنے آرہی ہے جس میں صدر اوباما نے یہ کہا تھا کہ مشرقی بحیرہ ِ چین میں چین اور جاپان کے درمیان متنازعہ جزیرے واشنگٹن اور ٹوکیو کے درمیان باہمی سیکورٹی معاہدے کے تحت آتے ہیں۔
صدر اوباما کی جانب سے یہ بیان ان کے دورہ ِ جاپان سے پہلے سامنے آیا جس کا مقصد امریکہ اور جاپان کے درمیان سیکورٹی اور معاشی معاملات پر بات چیت بتایا جا رہا ہے۔
صدر اوباما نے ایک جاپانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر کبھی بھی ان جزیروں پر کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہوا تو امریکہ جاپان کی مدد کے لیے آگے بڑھے گا۔
واضح رہے کہ چین ان جزیروں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
صدر اوباما کے دورہ ِ ایشیاء سے قبل ہی یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ صدر اوباما چین اور جاپان کے درمیان متنازعہ جزیروں کے معاملے پر بات کریں گے۔
ایک موقر جاپانی جریدے نے بدھ کے روز صدر اوباما کے ساتھ کیے گئے انٹرویو کی تفصیل چھاپی ہے جس کے مطابق متنازعہ جزیروں کے حوالے سے یہ امریکہ کی جانب سے پہلا ایسا باضابطہ بیان ہے جس میں امریکہ نے کھل کر اس حوالے سے نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے بلکہ اپنی پوزیشن بھی واضح کی ہے۔
ان متنازعہ جزیروں کو جاپان سینکاکو جبکہ چین ڈائیو کہتا ہے۔
جاپان ایک زمانے سے ان جزیروں کا نظم و نسق چلا رہا ہے جبکہ چین ان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
چین کی وزارت ِ خارجہ کے ترجمان کن گینگ کے مطابق امریکہ جاپان سیکورٹی معاہدہ سرد جنگ کے دوران طے پایا تھا اور یہ کہ چین ان جزیروں کو امریکہ اور جاپان کے درمیان ٹریٹی میں دینے کی شدید مخالفت کرتا ہے۔
کن گینگ کا کہنا تھا کہ، ’امریکہ کو حقائق مد ِ نظر رکھتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ امریکہ کو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنی چاہیئے اور خطے میں موثر کردار ادا کرنا چاہیئے‘۔
واضح رہے کہ امریکہ نے ان جزیروں کا نظم و نسق جاپان کے حوالے 1972 میں کیا تھا اور تب سے ہی یہ جزیرے چین اور جاپان کے درمیان وجہ ِ تنازعہ بنے ہوئے ہیں۔
صدر اوباما کی جانب سے یہ بیان ان کے دورہ ِ جاپان سے پہلے سامنے آیا جس کا مقصد امریکہ اور جاپان کے درمیان سیکورٹی اور معاشی معاملات پر بات چیت بتایا جا رہا ہے۔
صدر اوباما نے ایک جاپانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر کبھی بھی ان جزیروں پر کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہوا تو امریکہ جاپان کی مدد کے لیے آگے بڑھے گا۔
واضح رہے کہ چین ان جزیروں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
صدر اوباما کے دورہ ِ ایشیاء سے قبل ہی یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ صدر اوباما چین اور جاپان کے درمیان متنازعہ جزیروں کے معاملے پر بات کریں گے۔
ایک موقر جاپانی جریدے نے بدھ کے روز صدر اوباما کے ساتھ کیے گئے انٹرویو کی تفصیل چھاپی ہے جس کے مطابق متنازعہ جزیروں کے حوالے سے یہ امریکہ کی جانب سے پہلا ایسا باضابطہ بیان ہے جس میں امریکہ نے کھل کر اس حوالے سے نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے بلکہ اپنی پوزیشن بھی واضح کی ہے۔
ان متنازعہ جزیروں کو جاپان سینکاکو جبکہ چین ڈائیو کہتا ہے۔
جاپان ایک زمانے سے ان جزیروں کا نظم و نسق چلا رہا ہے جبکہ چین ان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
چین کی وزارت ِ خارجہ کے ترجمان کن گینگ کے مطابق امریکہ جاپان سیکورٹی معاہدہ سرد جنگ کے دوران طے پایا تھا اور یہ کہ چین ان جزیروں کو امریکہ اور جاپان کے درمیان ٹریٹی میں دینے کی شدید مخالفت کرتا ہے۔
کن گینگ کا کہنا تھا کہ، ’امریکہ کو حقائق مد ِ نظر رکھتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ امریکہ کو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنی چاہیئے اور خطے میں موثر کردار ادا کرنا چاہیئے‘۔
واضح رہے کہ امریکہ نے ان جزیروں کا نظم و نسق جاپان کے حوالے 1972 میں کیا تھا اور تب سے ہی یہ جزیرے چین اور جاپان کے درمیان وجہ ِ تنازعہ بنے ہوئے ہیں۔