چینی رہنما شی جن پنگ نے وسطی ایشیا کے ساتھ مزید ریلوے اور دیگر تجارتی روابط قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعہ کو خطے کے رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ میں جو خطے میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو اجاگر کرتی ہے،تیل اور گیس کے ذرائع کو مشترکہ طور پر فروغ دینے کی تجویز پیش کی۔
دو روزہ چین-وسطی ایشیا سربراہی اجلاس مغربی شہر ژیان میں اس وقت منعقد ہوا جب صدر جو بائیڈن اور سات بڑی معیشتوں کے گروپ کے دیگر رہنماؤں کا جاپان میں اجلاس ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسے سیکیورٹی اور تجارتی نیٹ ورکس کو فروغ دینے کی چین کی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے، جو چین پر مرکوز ہوں ، اور جو عالمی امور پر امریکی غلبے کو ناپسند کرتا ہے۔
چین ریلوے اور تجارت سے متعلق دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سمیت وسطی ایشیا میں اقتصادی راہیں بنا رہا ہے۔ اس نے سابق سوویت جمہوریتوں پر روسی اثر و رسوخ کو ختم کر دیا ہے جو دنیا کی اس دوسری سب سے بڑی معیشت کو ایک اہم منڈی اور سرمایہ کاری کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
شی نے قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے رہنماؤں سے خطاب میں کہاکہ ہمیں اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
چین مغرب پر الزام لگاتا ہے کہ وہ مغربی علاقے سنکیانگ میں حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے خلاف مظاہروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جہاں غالب مسلم اقلیت آباد ہے جس کے وسطی ایشیا سے تعلقات ہیں۔
چینی رہنما نے شاہراہوں اور ریل لائنوں کو ترقی دے کر سرحد کے آر پار تجارت میں اضافہ کرنے اور چین کی تجارتی کمپنیوں کو وسطی ایشیا میں گودام قائم کرنے کی ترغیب دینے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے درآمدی طریقہ کار کو آسان بنانے کا بھی وعدہ کیا۔
شی نے تیل اور گیس کے ذرائع کو ترقی دینے کے لیے چین-وسطی ایشیا شراکت داری کے قیام کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ چین کی معیشت کو وسطی ایشیائی گیس کی فراہمی اور جوہری توانائی کو فروغ دینے کے لیے ایک اضافی پائپ لائن کی تعمیر کو تیز کرنا چاہتا ہے۔
شی نے وسطی ایشیائی حکومتوں کو سیکیورٹی اور دفاع کو مضبوط بنانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چینی مدد کا وعدہ کیا۔ انہوں نے افغانستان میں مشترکہ طور پر امن کو فروغ دینے کا وعدہ بھی کیا۔
بیجنگ نے اس سے قبل وسطی ایشیائی سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کے لیے ایک علاقائی انسداد دہشت گردی مرکز کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
شی کی حکومت سیاسی حوالے سے اسلام کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے اور اس پر سنکیانگ میں تقریباً 10 لاکھ افراد کو حراست میں لینے کا الزام ہے ، جس کے بارے میں بیجنگ کا کہنا ہے کہ یہ انتہا پسندی کو روکنے کی مہم ہے۔
شی نے کہا کہ ہمیں تین قوتوں، دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کو قطعی طور پر برداشت نہیں کرنا چاہیئے۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے)