اگر آپ چین کی سیاحت کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ وہاں ان دنوں پبلک ٹائلٹس یعنی عوامی بیت الخلا کو ترقی یافتہ ملکوں کی سطح پر لانے کی ایک بڑی مہم پر زور شور سے کام ہو رہا ہے اور آئندہ سال کے آخر تک آپ چین کے جس شہر اور گاؤں میں جائیں گے، وہاں آپ کو شیشے کی طرح چمکتے دمکتے صاف ستھرے پبلک ٹائلٹس ملیں گے۔
اگرچہ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہونے کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور قطبی علاقوں کے یخ اور منجمد پہاڑوں سے لے کر افریقہ کے تپتے اور جھلسا دینے والے ریگزاروں تک دنیا کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے جہاں چین کی تیار کردہ خوبصورت مصنوعات کثرت سے موجود نہ ہوں۔ لیکن دوسری جانب چین کے زیادہ تر پبلک ٹائلٹس میں آپ داخل ہونے کا حوصلہ نہیں کر پائیں گے۔
چینیوں کی اکثریت آج بھی اسی طرح کی زندگی گذار رہی ہے جیسی ہمیں ترقی پذیر ملکوں میں دکھائی دیتی ہے۔ خاص طور پر ان کے زیادہ تر عوامی غسل خانے تو بہت ہی غلیظ اور بد بو دار ہوتے ہیں۔ ان میں داخل ہونے کا حوصلہ کرنے کے لیے آپ کو اپنی ناک کو ڈھاپنا پڑتا ہے۔ یہ شکایت چین کی سیاحت پر جانے والے ہی نہیں کرتے بلکہ اس کا احساس خود چینی حکام کو بھی ہے۔
چین کے پبلک ٹائلٹس کے متعلق یہ شکایت بھی عام ہے کہ اکثر اوقات ان میں ٹائلٹ پیپر نہیں ہوتے اور ٹائلٹس کی صفائی کی طرف بھی کوئی دھیان نہیں دیتا۔ لیکن یہ صرف چین کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ صحت کے عالمی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں سے 4 ارب 20 کروڑ افراد فلش ٹائلٹ سے محروم ہیں۔
براعظم افریقہ کے غریب اور پس ماندہ ملکوں کا تو ذکر ہی کیا، بھارت ، جس کا شمار تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت میں ہوتا ہے، کی آدھی سے زیادہ آبادی کے گھروں میں ٹائلٹ نہیں ہیں اور انہیں فطری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کھیتوں اور جنگلوں میں جانا پڑتا ہے۔
ایک عالمی ادارے واٹر ایڈ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان بھی دنیا کے ان دس ملکوں میں شامل ہے جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے گھروں میں ٹائلٹ میسر نہیں ۔ اس فہرست میں شامل باقی ممالک بھارت، چین ، نائیجیریا، انڈونیشیا، روس ، بنگلہ دیش، کانگو ، برازیل اور ایتھوپیا ہیں۔ تاہم اس فہرست میں تعداد کے اعتبار سے بھارت سب سے اوپر ہے۔ کچھ عرصے سے بھارت میں انسانی حقوق کا ایک گروپ یہ تحریک چلا رہا ہے کہ لڑکیاں اس گھر میں شادی سے انکار کر دیں جہاں ٹائلٹ موجود نہ ہو۔
کچھ عرصے چین میں پبلک ٹائلٹس کو عوامی معیار پر لانے کی مہم زور شور سے جاری ہے، تاہم اس کاتعلق شادی بیاہ سے نہیں بلکہ سیاحت سے ہے۔ جیسے جیسے چین ترقی کر رہا ہے اور تاریخی اہمیت کے مقامات تک رسائی آسان ہوتی جا رہی ہے، سیاحوں کی آمدو رفت بڑھتی جا رہی ہے۔ چینی حکام یہ نہیں چاہتے کہ غیرملکی مہمان ان کے پبلک ٹائلٹس کے متعلق منفی تاثر لے کر واپس جائیں۔
ٹائلٹس سنوارو مہم میں چین کے صدر ژی جن پنگ پیش پیش ہیں۔ اپنے ایک پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ ٹائلٹس کا معاملہ کوئی معمولی اور چھوٹی چیز نہیں ہے۔ ان کی صفائی ستھرائی اور معیار کو بہتر بنانا ایک مہذب آبادی اور دیہی ماحول کے لیے ضروری ہے۔
چین کے سرکاری خبررساں ادارے سنہوا نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سال کے آخر تک ملک بھر میں 70 ہزار سے زیادہ پبلک ٹائلٹس کا معیار بہتر بنا دیا جائے گا۔
نیشنل ٹورزم نے کہا ہے کہ 2018 سے 2020 کے درمیانی عرصے میں مزید 64 ہزار ٹائلٹس تعمیر کیے جائیں گے یا ان کا معیار بہتر بنایا جائے گا۔
سنہوا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر ژی کا اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے حکومتی عہدے دار باقاعدگی سے دیہی علاقوں میں جا رہے ہیں اور لوگوں سے یہ دریافت کر رہے کہ آیا ان کے ہاں فلش والے ٹائلٹ ہیں یا وہ ابھی تک پرانے طرز کے ٹائلٹ استعمال کر رہے ہیں۔
چین میں ابھی تک مشرقی طرز کے گھٹنوں کے بل بیٹھنے والے ٹائلٹ استعمال ہو رہے ہیں ۔ اکثر چینی باشندے کموڈ ٹائلٹ سے گھبراتے ہیں۔ پبلک ٹائلٹس کو مغربی معیار پر لانے اور لوگوں کو اس کا عادی بنانے کے لیے حکام کو کافی محنت کرنی پڑے گی۔
ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پبلک ٹائلٹس کی صفائی ستھرائی کے ذمہ دار یہ شکایت کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے اصل ذمہ دار عام شہری ہیں۔ وہ صفائی کا خیال نہیں رکھتے اور گندگی پھیلاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹائلٹس میں رکھے جانے والے ٹائلٹ پیپر لوگ چرا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
صدر ژی کی ہدایت پر پبلک ٹائلٹس میں انقلابی إصلاحات کی مہم شروع ہونے کے بعد مقامی حکام اب انسانی زندگی میں ٹائلٹ کی اہمیت سے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں اور انہیں یہ بتا رہے ہیں کہ ٹائلٹس کا معیار بہتر ہونے سے نہ انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر معاشرتی درجے میں اضافہ ہوتا ہے اور سیاحت کو بھی فروغ ملتا ہے۔
چین میں غسل خانوں کو بہتر بنانے کی مہم کو چین کے لوگوں نے سراہا ہے اور وہ چینی زبان کی پبلک ویب سائٹس پر اس مہم کی تعریف کر رہے ہیں۔
ایک چینی باشندے نے سماجی رابطوں کی ایک ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ مجھے جب گھر سے باہر کسی شہر یا دیہی آبادی میں جانا پڑتا ہے تو میرے لیے سب سے مشکل کام ایک صاف ستھرا ٹائلٹ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اس نے توقع ظاہر کی ہے کہ صدر ژی کی اس انقلابی مہم کی تکمیل سے چینیوں کی زندگی میں فی الواقع انقلاب آ جائے گا۔