رسائی کے لنکس

چوہے کھانے والے بھارت کے غریب ترین لوگ


موسہار قبیلے کی خواتین کھانا بکا رہی ہیں۔
موسہار قبیلے کی خواتین کھانا بکا رہی ہیں۔

اگر آپ کو بھارتی ریاست بہار کے ایک قصبے عالم پور گونپورا میں جانے کا اتفاق ہو تو وہاں یہ مناظر دیکھنے میں ملیں گے کہ کسی گلی محلے میں مجمع لگا ہے۔ جب آپ مجمع کے اندر جھانکتے ہیں تو آپ کو ایک شخص دکھائی دیتا ہے جو چوہا مارنے کی کوشش کررہا ہے۔ جب چوہا مر جاتا ہے تو لوگ تالیاں بجا کر اسے داد دیتے ہیں۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ گونپورا میں چوہوں کی کثرت ہوگئی ہے۔ جی نہیں ، یہ بات نہیں ہے۔ وہاں چوہے مشکل سے ملتے ہیں اور کسی چوہے کا ملنا خوشی کی بات ہوتی ہے کیونکہ اس قصبے کی آبادی کا ایک گروپ چوہے بڑے شوق سے کھاتا ہے اور یہ ان کی مرغوب غذا ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی نے چوہا مارنے کے ایک واقعہ کی ویڈیو بنائی ہے جس میں پھیکن مانجھی نامی شخص چوہا مار کر محلے والوں سے داد موصول کرتا ہے۔

موسہار قبیلے کا ایک شخص چوہا پکڑ رہا ہے۔
موسہار قبیلے کا ایک شخص چوہا پکڑ رہا ہے۔

منجھی کا قبیلہ قصبے کے مضافات میں مٹی اور سرکنڈوں سے بنی ہوئی جھونپڑیوں میں رہتا ہے۔ ان کا شمار بھارت کے غریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ گوشت ان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ چوہے ان کے لیے گوشت کا نعیم البدل ہیں، جسے وہ بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔

مانجھی کا کہنا ہے کہ صرف پندرہ منٹ لگتے ہیں چوہے کا لذیذ سالن بنانے میں۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری آبادی کے ہر شخص کو یہ ڈش بنانی آتی ہے اور انہیں یہ بہت پسند ہے، کیونکہ یہ گوشت کا سالن ہے۔

بھارت کی غریب ترین آبادی کا یہ گروپ موسہار کہلاتا ہے۔ اسے بن باسی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا شمار نچلی ذات کے ہندو گروپس میں کیا جاتا ہے۔ ان کا معاشرتی مقام اور درجہ اتنا کم ہے کہ ہندو ذات پات نظام میں سب سے نچلے درجے پر فائز شودر اور دلت بھی انہیں خود سے کم تر اور نیچ سمجھتے ہیں۔

موسہار قبیلے کی خواتین
موسہار قبیلے کی خواتین

بھارت میں بن باسیوں کی تعداد 25 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

ان کی زیادہ تربستیاں ، بھارتی ریاستوں بہار اور اترپردیش میں پائی جاتی ہیں۔ انہیں چوہے خور بھی کہا جاتا ہے۔

موسہارکی فلاح و بہبود کے لیے تین عشروں سے کام کرنے والے سماجی کارکن سدھا ورگھسی کا کہنا ہے کہ آبادی کا یہ گروپ بھارتی غریبوں میں بھی غریب ترین ہے اور حکومت کے کسی فلاحی پروگرام تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ وہ محنت مزوری کر کے بمشکل ایک ڈالر یومیہ کماتے ہیں ، جس پر گذر بسر بہت مشکل ہے۔

سدھا کا کہنا ہے کہ بن باسیوں کے لیے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی بہت دشوار ہے۔ صحت و صفائی کی سہولتیں حاصل نہ ہونے کی وجہ سے آبادی کے اس گروپ میں کوڑھ کا مرض عام ہے۔

لیکن اگر انسان کسی چیز کا مصمم ارادہ کرکے خلوص نیت سے کام کرے تو راستے خود بخود نکلتے چلے آتے ہیں۔ جتن رام منجھی اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ موسہار گروپ سے تعلق رکھنے والے جتن رام 2014 میں ریاست بہار کے پہلے بن باسی وزیراعلیٰ بنے اور 9 ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم کے سوا کوئی بھی چیز انسان کی حالت نہیں بدل سکتی۔

بھارتی ریاست بہار میں موسہاروں کی ایک بستی
بھارتی ریاست بہار میں موسہاروں کی ایک بستی

یہ تعلیم ہی تھی کہ آبادی کے غریب ترین گروپ کا ایک فرد بھارت کی گنجان آباد ترین ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز ایک چرواہے کے طور پر کیا تھا اور انہیں مزور کی حیثیت سے کھیتوں پر جبری مشقت بھی کرنی پڑی ۔

جتن رام کہتے ہیں کہ ہمارے گروپ کو بھارت میں اتنا نظرانداز کیا جاتا ہے کہ اس کی صحیح تعداد تک کا کسی کو علم نہیں ۔ میرے اندازے کے مطابق موسہار 80 لاکھ سے زیادہ ہیں۔ کوئی ان کے لیے کچھ نہیں کر رہا۔

شاید وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کیونکہ آج بھی پھیکن منجھی اور دوسرے بن باسی چوہے پکڑ کر خوش ہوتے ہیں اور اسے کھانا عیاشی سمجھتے ہیں۔

لیکن ریاست بہار کے سماجی بہبود کے وزیر رمیش رشی دیو اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تبدیلی آ رہی ہے اور ان کا محکمہ تمام غریب طبقوں کی حالت سدھارنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG