امریکی تاجروں کی ایک بڑی تعداد چین میں اس رویے کے باعث جسے وہ امتیازی سرکاری پالیسیاں اور غیر مستقل قانونی برتاؤ سمجھتے ہیں ، یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہاں ان کی آمد کو پسند نہیں کیا جاتا ۔ یہ بات پیر کے روز چین میں امریکی چیمبر آف کامرس کی جانب سے جاری ایک سروے رپورٹ میں سامنے آئی۔
چین میں امریکی چیمبر آف کامرس کے صدر مائیکل باربلاس کا کہنا ہے کہ ان کے 203 رکنی ادارے کے ایک سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں کاروبار کرنے والے امریکی تاجروں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سروے میں ہم نے جو سوال پوچھا تھا وہ یہ تھا کہ کیا چینی مارکیٹ میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کی وہاں موجودگی کے لیے ناپسندیدگی بڑھ رہی ہے؟ تو 38 فیصد نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔ 2008 ءمیں جب ہم نے یہ ہی سوال پوچھا تھا تو صرف 23 فیصد نے یہ جواب دیا تھا اس لیے صرف ایک ہی سال میں اس شرح میں 15 فیصد اضافہ ہوا اور ہمارا خیال ہے کہ یہ ایک خاصی بڑی شرح ہے۔
مائیکل بزنس کمیونٹی کے رویے میں اس تبدیلی کو چینی حکومت کے ان ضابطوں سے منسوب کرتے ہیں جو غیر متنوع جدت کے نام سے معروف ہیں۔ اس پالیسی کے تحت چینی اور غیر ملکی دونوں طرح کی کمپنیوں کو کسی غیر ملکی ٹکنالوجی کے استعمال یا اس کی خریداری کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اوراس کی بجا ئے ملک میں تیار ہونے والی ٹکنالوجی کے استعمال کرنے کے سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
چینی حکومت نے 2006 ء میں یہ پالیسی متعارف کرائی تھی اور دسمبر میں غیر متنوع جدت نامی حیثیت کے لئے نافذ کرنے کی ایک تفصیلی کارروائی کا اعلان کیا گیا۔
غیر ملکی تاجر برادری میں نکتہ چینی کرنے والے الزام لگاتے ہیں کہ اس پالیسی کے تحت انہیں چین میں کاروبار جاری رکھنے کے لیے عملاً اہم تجارتی راز مفت افشا کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
باربلاس کا کہنا ہے کہ امریکی چیمبر آف کامرس اس بات کے خلاف نہیں ہے کہ چین اپنی ٹکنالوجی تیار نہ کرے ،لیکن اسے اس بارے میں تشویش ہے کہ چینی حکومت ان نئی پالیسیوں کو کس طریقے سے نافذ کرے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تشویش اس بات پر ہے کہ یہ پالیسی حقیقی معنوں میں کسی کھلےطریقے سے نافذ نہیں ہو گی۔ ہم تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے اوپن مارکیٹیں چاہتے ہیں۔
حکومت چین میں غیر ملکی کمیونٹی سے رابطے کر رہی ہے۔ وزیر تجارت چین دیمنگ نے حال ہی میں غیر ملکی کاروباری افراد سے ملاقات کی اور اس ماہ ایک نیوز کانفرنس میں وزیر اعظم وین جیاباؤ نے کہا کہ وہ بھی غیرملکی کاروباری افراد سے ملاقات کرنا چاہیں گے۔
وزیر اعظم جیا باؤ نے کہا کہ ایسے رابطوں سے ان کاروباری افراد کو چینی پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ اس بارے میں ان کی آرا بھی سننا چاہیں گے کہ چین کس طرح مزید غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔
امریکی چیمبر آف کامرس کے باربلاس ان ملاقاتوں سے نیک توقعات رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ ان کے نتیجے میں قوانین اور ضابطوں کی وضاحت ہو گی اور انہیں بہتر بنایا جا سکے گا۔