چین بحرالکاہل کے دس چھوٹے ممالک کے ساتھ ایک ایسے جامع معاہدے کی توثیق چاہتا ہے جوسیکورٹی سے لے کر ماہی گیری تک تمام امور کا احاطہ کرتا ہو۔لیکن بعض رہنما وں نے خبردار کیا ہے کہ چین کی یہ کوشش خطے پر کنڑول کے لیے اس کی کایہ پلٹنے کی کاروائی ہوسکتی ہے۔
خبررساں ادارے اے پی کو ایک معاہدے کا مسودہ ہاتھ لگا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین روایتی اور غیر روایتی سیکورٹی کے لیے ٹیم کی تشکیل اور قانون نافذ کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون کے فروغ کے لیے بحرالکاہل کے خطے کے پولیس افسران کو تربیت فراہم کرنا چاہتا ہے
چین اس کے ساتھ ماہی گیری کے لیے ایک مشترکہ سمندری منصوبہ بھی تیار کرنا چاہتا ہے جس کے تحت خطے کے ممالک منافع بخش ٹونا مچھلی کو پکڑنے اور نیٹ ورکس کے درمیان تعاون کو فروغ دیں گے ، چین معاہدے کے تحت ان ممالک میں ثقافتی فروغ کے لیے کنفیوسشس انسٹیٹوٹس اور کلاس رومز قائم کرے گا۔ معاہدے میں چین نے بحرالکاہل کی اقوام کے درمیان آزاد تجارتی علاقہ قائم کرنے کے امکان کا بھی ذکر کیا ہے۔
چین کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چینی وزیر خارجہ وانگ یی بیس رکنی وفدکے ہمراہ اس ہفتے خطے کا دورہ شروع کررہے ہیں۔ اس میں وانگ ان سات جزائر، سولومن، کریباتی ، ساموا، فیجی، ٹونکا وانو اور پاپوانیوگنی کا دورہ کریں گے جن کے بارے میں انھیں امید ہے کہ وہ مشترکہ ترقی کے وژن کی توثیق کردیں گے۔
وانگ دیگر تین ممکنہ دستخط کندگان کوک آئی لینڈز، نیو اورفیڈریٹڈ اور اسٹیٹس آف مائیکرونیشیاکے ساتھ بھی ورچوئل اجلاس کریں گے ۔ انھیں توقع ہے کہ تیس مئی کو فجی میں دس ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ طے شدہ اجلاس میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوگا اس میں پہلے سے تحریرشدہ معاہدے کی توثیق ہوجائے گی۔
لیکن مائیکرو نیشیا کے صدر ڈیوڈ نپیلو نے بحرالکاہل کے دیگر ممالک کے رہنماوں کو آٹھ صفحات پر مشتمل ایک خط تحریر کیا ہے جس میں کہا ہے کہ ان کی اقوام منصوبے کی توثیق نہیں کریں گی اورخبردار کیا ہے کہ اگر دوسرے ایسا کرتے ہیں تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اے پی کو ملنے والے خط میں پینیلو نے کہا کہ معاہدے میں ایکویٹی اور انصاف جیسے پرکشش الفاظ کے پیچھے بہت سی تشویشناک تفصیلات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دیگر خدشات کے علاوہ یہ معاہدہ چین کے لیے علاقے کے ماہی گیری اور مواصلاتی ڈھانچے کی ملکیت کو کنڑول کرنےکا دروازہ کھول دے گا۔ انھوں نے کہا کہ چین مبینہ طور پر ای ملیز میں مداخلت اور فون کالز سن سکے گا۔
پنیلو نے اپنے خط میں کہا کہ یہ معاہدہ ہم میں سے ان لوگوں کو جو چین کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتے ہیں بیجنگ کے مدار کے بلکل قریب کردے گا اور اندرونی طور پر ہماری تمام معیشتوں اور معاشروں کو ان سے جوڑدے گا۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ یہ معاہدہ غیر ضروری طور پر جغرافیائی سیاسی کشیدگی کو بڑھاوا دے گا اور علاقائی استحکام کے لیے خطرہ پیدا کردے گا۔
اپنے خط میں پنیلو نے کہا کہ مشترکہ ترقیاتی تصورصورتحال کو تبدیل کردینے والا معاہدہ ہوگا جو ایک نئی سرد جنگ کے دور یا آخر کار بدترین عالمی جنگ کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے بدھ کو کہا کہ وہ پنیلو کے خط کے بارے میں نہیں جانتے لیکن وہ اس دلیل سے بالکل متفق نہیں کہ چین اور جنوبی بحرالکاہل کے جزیروں کے ممالک کے درمیان تعاون ایک نئی سرد جنگ کو جنم دے گا۔
انھوں نے کہا کہ چین کے جنوبی بحرالکاہل کے جزیروں کے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ وہ بغیر کسی سیاسی تعلق کے ان ممالک کو معاشی اور تکنیکی مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔
بحرالکاہل کے کچھ دوسرے ممالک کی طرح مائیکرونیشیا بھی خود کو واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان مسابقتی مفادات کی دوڑ میں پھنسا ہوا محسوس کرتاہے۔ مائیکرونیشیا کے کمپکٹ آف فری ایسوسی ایشن کے ذریعے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، لیکن جیسا کہ پنیلو نے اپنے خط میں چین کے ساتھ عظیم دوستی کا اظہار کیا ہے، انھیں توقع ہے کہ معاہدے کی مخالفت کے باوجود چین سے بھی اس کے تعلقات قائم رہیں گے۔
ان جزائر کے درمیان معاہدے کا حفاظتی پہلو خطے اور اس کے باہر کے ممالک کے لیے خاص طور پرپریشان کن ہے ، جب چین نے گزشتہ ماہ جزیرے سولومن کے ساتھ ایک الگ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کیے تو یہ خدشہ پیدا ہوا تھا کہ چین اس جزیرے پر اپنی فوج بھیج سکتا ہے۔ یہ جزیرہ آسٹریلیا سے زیادہ دور نہیں ہے۔ جزائر سولومن اور چین کا کہنا ہے کہ وہ یہاں اڈے قائم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتے۔
تیس مئی کو وانگ اور بحرالکاہل کے جزیروں کے وزرائے خارجہ کے مابین دوسری ملاقات ہوگی ۔ وہ گزشتہ اکتوبر میں پہلے ہی ورچوئل اجلاس منعقد کرچکے ہیں۔
چین اور ان جزائر کے درمیان مجوزہ معاہدے کے تحت بحرالکاہل کے ممالک کی پولیس کو چین درمیانی اور اعلی سطح کی پولیس ٹریننگ دے گا۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک روایتی اور غیر روایتی سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط کریں گے ،مشترکہ طور پر بین الااقوامی جرائم کا مقابلہ کریں گے اور قانون نافذ کرنے کی صلاحیت اور پولیس کے درمیان تعاون کے لیے بات چیت کا ایک مستقل میکنزم بھی قائم کریں گے۔
معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بحرالکاہل کے ممالک 'ون چائنا' اصول کی مضبوطی سے پابندی کریں گے جس کے تحت تائیوان کو چین کا حصہ تصور کیا جاتا ہے ۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ چین اور بحرالکاہل کے ممالک مشترکہ طور پر ایک مقامی سمندری منصوبہ تیار کریں گے تاکہ سمندری معیشت کو بہتر بنایا جاسکے اور سمندری وسائل کو بہتر طور پر استعمال میں لایا جاسکے ۔
چین نے اپنی زبان کے مشیروں ، اساتذہ اور رضاکاروں کو جزائر پر بھیجنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ خبررساں ادارے اے پی کو ایک پانچ سالہ ایکشن پلان کا مسودہ بھی ملا ہے ۔ اس مسودے میں مشترکہ ترقیاتی وژن کے ساتھ متعدد فوری مراعات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو چین بحرالکاہل کے ممالک کوفراہم کرے گا ۔
ایکشن پلان میں چین کا کہنا ہے کہ وہ دو ہزار پچیس تک ان ممالک کو ڈھائی ہزار سرکاری وظائف فراہم کرے گا۔ مسودے کے مطابق چین دو ہزار بائیس میں بحرالکاہل کے ممالک کے نوجوان سفارتکاروں کے لیے تربیتی پروگرام بھی منعقد کرے گا۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)