رسائی کے لنکس

چینی کرنسی کی قدراور عالمی تجارت


حال ہی میں چین نے اپنی کرنسی یوان کی قدر کے حوالے سے اپنی پالیسی میں نرمی کا اعلان کیا تاہم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں یوان کے آزادانہ لین دین سے فی الحال امریکہ یا دنیا کے دیگر ممالک کے اس خسارے پر کوئی اثر نہیں پڑے گاجو انہیں چین کے ساتھ تجارت میں اٹھانا پڑرہا ہے۔لیکن کیا یوان کی قدر میں تبدیلی چین کے صنعتی اور تجارتی شعبے پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے؟

چین کے طرف سے اپنی کرنسی کی کی قدر میں لچک پیدا کرنے کوششوں کے باوجود اس کی قیمت میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں چینی یوان قیمت پہلے ہی کم ہے۔ اس صورت حال میں چینی کرنسی کی قیمت میں معمولی اضافہ وہاں کے صنعتی شعبے کومتاثر کرسکتا ہے۔اگر یوان پانچ فیصد بھی بڑھتا ہے تو چینی صنعتی شعبے کےپیداواری اخراجات میں اضافہ اور نتیجتاً روزگار کے مواقع کم ہوسکتے ہیں۔

چینی امور کے ایک ماہر چارلس کپ چان کہتے ہیں کہ چینی کرنسی یوان کی قدر اس کی اصلی قیمت سے قریبا 40 فیصد کم ہے، جس کی وجہ سے غیر ملکی منڈیوں میں چینی اشیا کی قیمتیں کم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا خیال نہیں ہے کہ یوان کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر اس کی قیمت بڑھتی بھی ہے تو عالمی تجارت پراس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔لیکن اگر یہ اضافہ چینی پالیسی کے تحت کرنسی کی قدر میں توازن لانے کے لیے کیا گیا ہے تو اس کا اثر ہوسکتا ہے۔

شاید یہ عمل اب چین میں شروع ہو چکا ہے۔ مزدوروں اجرت میں اضافے کے پیش نظر صنعتکار اپنی فیکٹریاں چین کے دیہاتی علاقوں میں لگا رہے ہیں تاکہ وہاں کی سستی مزدوری کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔

کنگ شانگ شونگ ایل ای ڈی بلب تیار کرنے کے شعبے سے وابستہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ فیکٹریاں اب دیہاتی علاقوں میں لگائی جا رہی ہیں۔ نہ اصرف سستی مزدوری اور کم لاگت کے لیے، بلکہ کاروبار میں بڑھوتری کے لیے بھی۔

چینی مزدوروں میں بے چینی کی حالیہ لہر اور اسکے علاوہ فاکس کان کی کمپنی میں ایک مزدور کے خودکشی جیسے واقعات کے بعد مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد سےگین شو جیسے دور افتادہ علاقوں میں فیکٹریاں منتقل ہو رہی ہیں۔

زنگ وے لین گین شو ڈیولیپ منٹ زون کے ڈائریکٹر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ2009 ءمیں اس زون کی مجموعی پیداوار 5 ارب 12 کروڑ یوان تھی۔ میرے خیال سے آنے والے پانچ برس میں یہ چار گنا ہو جائے گی۔

سوشل سائنس کے پروفیسر یی شانگ رونگ کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں چین کو سستی لیبر کی کمی کے مسئلے کا سامنا نہیں ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ حیران ہیں کہ ہم اتنے برسوں سے سستی لیبر کیسے مہیا کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کی دیہی آبادی بہت زیادہ ہے۔

ٹورانٹو میں ہونے والی جی 20 کی حالیہ کانفرنس میں بھی چین کی معیشیت زیر بحث رہی ہے۔ امریکی اور یورپی لیڈروں کا کہنا ہے کہ یوان کی قدر میں اضافہ عالمی منڈی کو استحکام فراہم کرے گا۔

لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ سستی لیبر کے باعث چین آنے والے کئی برسوں تک عالمی تجارتی منڈی پر اپنی گرفت قائم رکھ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG