’پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد تربیت نے مجھ میں نہ صرف ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کیا بلکہ اس تربیت نے خود اعتمادی کو بھی بڑھایا ہے۔‘
یہ الفاظ خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی ضلعے چترال سے تعلق رکھنے والی دلشاد پری کے ہیں جنہیں حال ہی میں پولیس کا اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) تعینات کیا گیا ہے۔
دلشار پری کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سپاہی کی حیثیت سے پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد انہوں نے ہنگو میں ٹریننگ اسکول اور کالج میں تین مختلف ادوار میں ایسی تربیت حاصل کی جس کے نتیجے میں اب وہ ہر قسم کے حالات اور مشکلات سے نمٹ سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ضلعی پولیس نے انہیں ایس ایچ تعینات کر کے انہیں اس عہدے کا نہ صرف اہل سمجھا گیا بلکہ یہ ان کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور وہ اس چیلنج کو پورا کر کے دکھائیں گی۔
ضلع چترال کی تحصیل بونی سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون دلشاد پری نے گرم چشمہ کے پولیس اسٹیشن میں بطور ایس ایچ او اپنا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
دلشاد پری کا تعلق چترال کے علاقے بونی سے ہے اور ان کے والد بھی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل کے عہدے پر فائز رہے ہیں جن کا چند سال قبل انتقال ہو چکا ہے۔
دلشاد پری پولیس میں 2010 میں بطور لیڈی کانسٹیبل بھرتی ہوئی تھیں۔ دلشاد پری کے مطابق انہوں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم علاقے میں قائم غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے حاصل کی تھی۔
انٹرمیڈیٹ کے بعد انہوں نے سیدو شریف کے گرلز ڈگری کالج سے سائنس میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دلشاد پری نے کہا کہ گرلز کالج سے بی ایس سی کے فوراً بعد انہوں نے سوات کے تاریخی تعلیمی ادارے جہانزیب پوسٹ گریجویٹ کالج سے ایم ایس سی کیمسٹری کیا جس کے بعد انہوں نے چترال کے نجی تعلیمی ادارے سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
دلشاد پری نے بتایا کہ کالج میں انٹرمیڈیٹ کے دوران انہوں نے چترال ہی کے علاقے طور کہو کے ایک اور کالج سے فزیکل ایجوکیشن میں ڈپلوما کیا تھا اور آج کل وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے صحافت میں ڈپلومہ کر رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے والد بھی پولیس سے منسلک تھے اور انہوں نے والد کے انتقال کے بعد پولیس میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور باقاعدہ طور پر 2010 میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئیں۔ کانسٹیبل سے ہیڈ کانسٹیبل اور بعد میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) کی تربیت کا بھی موقع ملا۔
پولیس ٹریننگ اسکول اور کالج ہنگو میں تین بار انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔
دلشاد پری نے کہا کہ 2017 میں انہوں نے خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن سے محکمۂ پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کا امتحان پاس کر کے باقاعدہ طور پر ترقی حاصل کی اور بعد میں عہدے پر محکمۂ پولیس میں چترال ہی میں مختلف پولیس تھانوں اور دفاتر میں کام کیا۔
ان کے مطابق ان عہدوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے ہدایات پر قائم کیا گیا اسپیشل رپورٹنگ ڈیسک قابل ذکر ہے۔
خیبر پختونخوا میں چترال واحد ضلع ہے جہاں پر ایک خاتون سونیا شمع روز خان ضلعی پولیس افسر کے حیثیت سے تعینات ہیں۔ ان کے ساتھ دلشاد پری کی کارکردگی کے حوالے سے بارہا کاوشوں کے باوجود رابطہ نہ ہو سکا۔ تاہم ان کے دفتر میں موجود افسران اور اہلکاروں نے بتایا کہ بہتر کارکردگی کی بنیاد پر دلشاد پری کو ایس ایچ او کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
ان افسران کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاتون کی کارکردگی 2010 میں فورس میں شمولیت سے اب تک قابل تعریف رہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ خواتین کے مسائل کو حل کرنے، خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کی حوصلہ افزائی پر توجہ دی ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں دلشاد پری نے کہا کہ چترال کا شمار پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر خواتین میں خودکشیوں کا رجحان بہت زیادہ رہا ہے۔ جب سے خاتون پولیس افسر سونیا شمع روز آئی ہیں تو انہوں نے خواتین کی حوصلہ افزائی اور ان کے حقوق کی تحفظ پر توجہ دی ہے۔
شاد پری کے بقول خواتین باشعور ہو رہی ہیں اور وہ معاشرتی اور معاشی طور پر خود کفیل بھی ہیں اور ان میں خوداعتمادی کا عنصر بھی بڑھ رہا ہے۔
دلشاد پری کا کہنا ہے کہ خواتین میں خود اعتمادی اور شعور کے نتیجے میں ماضی کے نسبت گزشتہ ایک سال کے دوران چترال میں خواتین کی خودکشیوں کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں دلشاد پری کا کہنا تھا کہ پولیس اسکولوں اور اداروں کے پیشہ وارانہ تربیت نے ان کو اس قدر حوصلہ مند اور خود اعتماد کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے حالت کا سامنا کر سکتی ہیں۔