رسائی کے لنکس

فیض آباد دھرنا کیس، 'نظرِ ثانی درخواست واپس لے کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو ہوا مٹی پاؤ'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کو نیچا نہیں دکھا رہے، بلکہ اُنہیں مستحکم کر رہے ہیں۔

جمعرات کو فیض آباد دھرنا کیس پر نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ درخواستیں واپس کیوں لی جارہی ہیں، ہمیں بتائیں۔ سچ بولنے سے ہر کوئی کترا کیوں رہا ہے۔ درخواست واپس لے کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو ہوا مٹی پاؤ۔

اس دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت سے استدعا کی کہ فیصلے پر عمل درآمد کے لیے دو ماہ کی مہلت دی جائے جسے مسترد کرتے ہوئے سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیض آباد دھرنا لینڈ مارک فیصلہ ہے، ہم نے دھرنا فیصلے میں پوری داستان لکھی تھی۔

سال 2017 میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے جنکشن فیض آباد کے مقام پر تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ نے سال 2019 میں نمٹاتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پیمرا، پاکستان تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی مسلم لیگ سمیت نو فریقوں نے نظرِثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔ لیکن چار برس بعد سماعت شروع ہونے پر درخواستیں واپس لینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ "بس کہیں سے حکم آ گیا تو نظرِثانی کی درخواستیں دائر کر دی گئیں اور اب دوبارہ حکم آ گیا کہ واپس لی جائیں تو اب واپس لی جا رہی ہیں۔"

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید فیصلے میں کوئی غلطی ہے، لیکن یہاں تو درخواستیں واپس لی جا رہی ہیں۔

جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں نظرِثانی کی درخواستوں پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ فیصلہ دینے والے ایک جج جسٹس مشیر عالم ریٹائر ہو چکے ہیں اس لیے اُس بینچ کے سامنے کیس نہیں لگا۔

وفاقی حکومت نے نظرِثانی درخواست واپس لے لی جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے ہیں، کوئی وجہ ہےَ؟

جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے صرف نظرِثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

درخواست گزاروں میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد بھی شامل ہیں جن کے وکیل کے حوالے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں،تو اپنا متبادل وکیل مقرر کر کے آ جائیں۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے وکیل عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم تحریکِ انصاف کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی۔

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔

بعدازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی۔

فیض آباد دھرنا کیس

اس دھرنے کے دوران 22 روز تک فیض آباد کے مقام کو بند کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے دونوں شہروں کے درمیان ٹریفک معطل رہی اور لاکھوں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

دھرنے کو ختم کرنے کے لیے پولیس اور فرنٹیر کور (ایف سی) نے ایکشن لیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس دھرنے کے شرکا پولیس پر حاوی دکھائی دیے اور 100 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔

بعدازاں ایک معاہدےکے مطابق اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے کے بعد اس وقت کے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید کے دستخط سے ایک معاہدہ سامنے آیا ۔

فیض آباد دھرنا کیس کیا تھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

بعدازاں دھرنا ختم ہوا اور دھرنے کے خاتمے پر ڈی جی رینجرز پنجاب کی طرف سےدھرنے کے شرکا کو نقد رقوم لفافوں میں دینے کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔

اس وقت کے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر 2018 کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے اور ان کی وکالت کرنے والوں کی نشاندہی کریں جب کہ وزارتِ دفاع کے توسط سے تمام مسلح افواج کے سربراہان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے ادارے میں موجود ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے۔

عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل پر بھی تبصرہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ فوج کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اس کے دھڑے یا پھر ایک سیاسی شخص کی حمایت نہ کرے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ خیال کہ انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) ان معاملات میں ملوث ہے جن میں ایک سیکیورٹی ایجنسی کو شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، اس معاملے کو بھی ختم یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس فیصلے کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے نظرِثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن انہیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا تھا اور اب ان پر سماعت ہو رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG