چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کوہاٹ میں قتل ہونے والی میڈیکل کی طالبہ عاصمہ کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔
چیف جسٹس نے مردان میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی اسماء کے قتل میں ملوث ملزم کی عدم گرفتاری پر بھی خیبر پختونخوا پولیس پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے منگل کو مردان میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی اسماء کے واقعے کے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کوہاٹ میں شادی سے انکار پر قتل ہونے والی عاصمہ کیس کا بھی ازخود نوٹس لیتے ہوئے خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس اور ریجنل پولیس افسر سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی۔
کوہاٹ میں تین روز قبل میڈیکل کی طالبہ عاصمہ بی بی کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
مقتولہ کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ عاصمہ کو تحریکِ انصاف کے ضلعی صدر آفتاب عالم کے بھتیجے مجاہد آفریدی نے شادی سے انکار پر فائرنگ کرکے قتل کیا۔ ملزم کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ سعودی عرب فرار ہوگیا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوہاٹ میں بچی کو قتل کرکے بندہ بھاگ گیا۔ کے پی کے پولیس کیا کررہی ہے؟ لوگوں کو ہراساں کررہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحقیقات کا کوئی میکنزم نہیں۔ بتایا جائے کہ ملزم بیرون ملک کیسے فرار ہوا؟
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ملزم کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے؟
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ بہت سنا تھا خیبر پختونخوا پولیس بہتر ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی فرانزک لیب سے پوچھا جائے کہ اسماء کے قتل کی رپورٹ کب ملے گی؟ فرانزک لیب کی رپورٹ آنے تک تحقیقات رک گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خیبرپختو نخوا پولیس میں صلاحیت نہیں ہے اور صوبے کی پولیس پنجاب پر انحصار کر رہی ہے۔
دورانِ سماعت ڈی آئی جی مردان نے عدالت کو بتایا کہ چار سالہ اسما 13 جنوری کو گم ہو گئی تھی۔ مقدمے میں 300 سے زائد افراد سے تفتیش کی گئی۔ پنجاب فرانزک لیب کو 16 جنوری کو نمونے موصول ہوئے لیکن ابھی تک رپورٹ نہیں ملی۔ خیبرپختونخوا کی فرانزک لیب اگلے ہفتے تک بن جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی تک ملزم پکڑنے میں ناکام ہیں۔
چیف جسٹس نے مقتولہ اسماء کے والد سے استفسار کیا کہ پولیس نے آپ کو کچھ سمجھایا تو نہیں کہ عدالت میں کیا بولنا ہے؟ اس پر اسماء کے والد نے جواب دیا کہ پولیس نے کچھ نہیں سمجھایا۔
ڈی آئی جی مردان عالم شنواری نے عدالت کو بتایا کہ 218 افراد کے ڈی این اے نمونے لیے جاچکے ہیں۔ چیف جسٹس نے نمونے لاہور نہ بھجوانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص وقت کے بعد نمونے ضائع ہو جاتے ہیں۔ کے پی کے پولیس میں صلاحیت ہوتی تو لیب کے سلسلے میں پنجاب پر انحصار نہ کیا جاتا۔
بعد ازاں عدالت نے اسماء قتل کیس میں پیش رفت کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے منگل تک ملتوی کردی۔