رسائی کے لنکس

سانحہ اے پی ایس: 'سزا صرف والدین کو ملی جو انصاف کے لیے ٹھوکریں کھا رہے ہیں'


آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے ہلاکت خیز حملے کو ایک اور سال مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن اس سے سانحے میں جان سے جانے والے بچوں اور اساتذہ کے لواحقین کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ (فائل فوٹو)
آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے ہلاکت خیز حملے کو ایک اور سال مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن اس سے سانحے میں جان سے جانے والے بچوں اور اساتذہ کے لواحقین کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ (فائل فوٹو)

نوٹ: وائس آف امریکہ کی دسمبر 2020 میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کو چند ترامیم کے ساتھ دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

"وہ باپ بدقسمت ہوتے ہیں جو اپنے جوان بچوں کے جنازے کو کندھا دیتے ہیں۔ مستقبل میں یہی چاہیں گے کہ جو بھی ہو اسے ہر طرح سے سیکیورٹی ملے۔ تاکہ پھر ایسا سانحہ نہ ہو۔ تاکہ پھر کوئی ایسا باپ نہ ہو جو اپنے بچے کو کندھا دے۔ اس کے جنازے کو کندھا دے۔"

یہ الفاظ ہیں اجون خان کے جنہوں نے 2014 میں آج ہی کے دن اپنے بیٹے اسفند خان کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر ہونے والے حملے میں کھو دیا تھا۔

جس وقت دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا تو ان کے بیٹے اسفند دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔

آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے ہلاکت خیز حملے کو آج ایک اور سال مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن پشاور کی فضا میں آج بھی افسردگی نمایاں ہے۔

سانحۂ اے پی ایس کی برسی پر وزیرِ اعظم عمران خان ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول کے بچوں اور اساتذہ کے خلاف دہشت گردی کے بدترین حملے سے قوم شدید کرب اور صدمے سے دوچار ہوئی اور پوری قوم نے یکجا ہوکر ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ٹھانی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم قوم سے کیے گئے اپنے وعدے کی تکمیل میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 140 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری پاکستان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔

قومی لائحہ عمل تشکیل

آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا گیا تھا اور قانون میں ترمیم کے ذریعے ملک بھر میں فوجی عدالتوں کو فعال کر دیا گیا تاکہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات جلد نمٹائے جا سکیں۔

سانحۂ اے پی ایس: والدین اب بھی جوابات کے منتظر
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:44 0:00

نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں 21 ہزار 500 سے زائد کارروائیاں کی گئیں۔

ان کارروائیوں میں 1300 عسکریت پسند ہلاک اور 800 زخمی ہوئے جب کہ 5500 کو گرفتار کیا گیا۔

درجنوں دہشت گردوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات بھی چلائے گئے اور سزائیں سنائی گئیں۔

فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے لگ بھگ دو درجن سے زیادہ لوگوں کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔

فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تقریباً 200 ملزمان کی سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے۔ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے حکمِ امتناعی جاری کیا۔

ان تمام اقدامات کے باوجود والدین نے حملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔

والدین کے اصرار پر سپریم کورٹ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے اکتوبر 2018 میں ایک جوڈیشل کمیشن ترتیب دیا۔

کمیشن کی رپورٹ پر والدین کے تحفظات

جسٹس محمد ابراہیم خان نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ رواں سال جولائی میں سپریم کورٹ کو بھیجی جو ستمبر میں منظرِ عام پر لائی گئی۔ مگر بہت سے والدین کی طرح اجون خان کو بھی کچھ سوالوں کے جواب ابھی تک نہیں ملے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اجون خان نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں کہیں یہ تعین نہیں کیا گیا کہ کس کی وجہ سے سیکیورٹی لیپس ہوا؟ جس کی وجہ سے ہمارے بچے ہم سے جدا ہوئے اس کے بارے میں یا ان لوگوں کے بارے میں رپورٹ میں کوئی تجاویز نہیں دی گئیں۔

سانحۂ اے پی ایس میں زندہ بچنے والے کس حال میں ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:18 0:00

متاثرہ والدین میں ایک فضل خان ایڈووکیٹ بھی ہیں جو حکومت اور حکومتی اداروں کے اقدامات پر تنقید کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ وہ اس سانحے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں میں بھی شامل ہیں۔

فضل خان ایڈووکیٹ 2020 میں نامعلوم افراد کے حملے میں زخمی بھی ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے جان بچانے کی خاطر بیرونِ ملک عارضی رہائش اختیار کر رکھی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فضل خان ایڈووکیٹ نے سانحۂ اے پی ایس کے بعد کیے گئے حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس واقعے کی کسی کو سزا ملی ہے تو وہ صرف والدین ہیں جو انصاف کے لیے دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جب کہ واقعے کے ذمہ دار شخص کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

فضل خان کا اشارہ قاری احسان اللہ احسان کی طرف تھا جنہوں نے 2017 میں ایک معاہدے کے تحت خود کو حکومت کے حوالے کیا تھا۔ مگر رواں سال جنوری میں وہ سیکیورٹی اداروں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

فضل خان ایڈووکیٹ نے الزام لگاتے ہیں کہ احسان اللہ احسان کو نہ صرف رہا کر دیا گیا بلکہ انہیں ملک سے فرار ہونے میں مدد بھی دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور عدالت کی طرف سے جو کمیشن بنایا گیا تھا، اس میں ذمہ داروں کو سزا دینے کے بجائے تعریف کی گئی ہے۔

احسان اللہ احسان فرار

احسان اللہ احسان کے فرار کی تصدیق حکومتِ پاکستان بھی کر چکی ہے۔ فروری 2020 میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ نے احسان اللہ احسان کے فرار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے متعلق ریاست باخبر ہے اور اس پر بہت کام ہو رہا ہے۔

سانحۂ آرمی پبلک اسکول پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی ادارے پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں مصروف تھے جب کہ 'نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی' (نیکٹا) کی جانب سے فوج کے زیرِ انتظام تعلیمی اداروں سے متعلق تھریٹ الرٹ کا دائرہ خاصا وسیع تھا جس سے سیکیورٹی اداروں پر بوجھ مزید بڑھ گیا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جائے وقوعہ پر گارڈز کی کم تعداد اور پوزیشن بھی اس روز ہونے والے بڑے نقصان کی وجوہات میں سے ایک ہیں۔

'امید ہے، اے پی ایس حملے کے ذمہ داروں کو سزا ملے گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:09 0:00

سید اختر علی شاہ حملے کے وقت خیبر پختونخوا کے سیکریٹری داخلہ تھے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا "میں یہ کہوں گا کہ اطلاع دی گئی تھی۔ پھر جو آپریشنل فیلڈ میں تھے ان کا کام تھا کہ اس کو مزید ڈویلپ کرتے اور ساتھ ساتھ جو سافٹ ٹارگٹ بتائے گئے تھے ان کی سیکیورٹی زیادہ بہتر بناتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔"

’بروقت کارروائی سے بہت سی جانیں بچ گئیں جو قابلِ ستائش ہے‘

تاہم اختر علی شاہ کے مطابق حملے کے بعد سیکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائی سے بہت سی جانیں بچ گئیں جو قابلِ ستائش ہے۔

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر بعض والدین اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور حکومت و دیگر اداروں کے اقدامات سے بھی غیر مطمئن ہیں۔

اجون خان اور ان کی اہلیہ کا غم تو شاید کبھی کم نہ ہو۔ مگر انہیں امید ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کی بنیاد پر مستقبل میں دوسرے والدین کو اس کرب سے بچایا جا سکے گا جس سے ابھی وہ گزر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG