رسائی کے لنکس

جنگ بندی معاہدے کی میعاد ختم: ٹی ٹی پی کا حکومت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومتِ پاکستان اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی میعاد ختم ہو گئی ہے اور ٹی ٹی پی نے حکومت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا بھی الزام عائد کیا ہے۔

حکومت کی طرف سے اب تک اس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں کوئی باضابط اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں افہام و تفہیم کے لیے مذاکرت کا سلسلہ جاری ہے اور توقع ہے کہ بہت جلد ایک دیرپا معاہدہ طے پا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ فریقین کے درمیان تحریک طالبان افغانستان میں شامل دھڑے حقانی نیٹ ورک کے توسط سے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ملک بھر بالخصوص خیبر پختونخوا کے مختلف قبائلی اضلاع میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اس دوران دہشت گردی اور تشدد کے اکا دکا واقعات رپورٹ ہوئے۔

تشدد کے زیادہ تر واقعات افغانستان سے ملحقہ قبائلی اضلاع شمالی وزیرستان اور باجوڑ میں ہوئے۔ ان واقعات میں ایک ماہ کے دوران مجموعی طور پر 13 افراد ہلاک ہوئے جن میں پانچ سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔

حکام کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور مبینہ دہشت گردوں کے درمیان یکم دسمبر کو جھڑپ میں چار دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

ٹی ٹی پی نے جمعرات کو جاری اپنے ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدے یکم نومبر سے 30 نومبر تک تھا لیکن حکومتِ پاکستان نے جنگ بندی معاہدہ کا اعلان نو نومبر کو کیا۔ ​

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان قیام امن کے لیے جلد ایک مستقل امن معاہدہ طے پایا جانے کا امکان ہے۔ ملک میں تشدد اور دہشت گردی کے رجحان پر قابو پانے کے لیے اس قسم کے مذاکرات اور معاہدے ہونا ضروری ہیں۔

بیرسٹر سیف نے مذاکرتی عمل میں دونوں جانب سے شامل افراد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ مگر ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ خبروں کے مطابق مذاکراتی عمل تحریک طالبان افغانستان کے سرکردہ رہنماؤں بشمول حقانی نیٹ ورک کے سربراہ و موجودہ وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کے وساطت سے ہو رہے ہیں۔

طالبان کی جانب سے اس مذاکراتی عمل میں قاضی محمد امیر اور مولوی فقیر محمد سمیت ہلال محمود بھی شامل ہیں جن کا تعلق اسلام آباد کی لال مسجد بتایا جاتا ہے۔

حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی کی اطلاعات سامنے آتے ہی طالبان کی جانب سے لگ بھگ 100 سرکردہ کمانڈروں کی رہائی کے مطالبات بھی سامنے آئے تھے۔ ان افراد میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان سوات کے سابق ترجمان مسلم خان اور کمانڈر ملک محمود سمیت باجوڑ کے مولوی عبدالولی کے نام نمایاں ہیں۔ تاہم اب تک ان کی رہائی کے بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا۔

انگریزی اخبار 'دی نیوز' کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے حکومت نے 92 طالبان جنگجوؤں کو رہا کیا ہے جب کہ 46 کی آئندہ چند روز میں رہائی متوقع ہے۔

سابق سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس (ر) سید اختر علی شاہ نے وائس امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان پس پردہ نہ صرف مذاکرات جاری ہیں بلکہ کافی حد تک ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے مگر ان کے بقول سپریم کورٹ آف پاکستان کے تحفظات کے نتیجے میں کسی قسم کا اعلان یا فیصلے سامنے نہیں لائے جاتے۔

انہوں نے کہا فریقین کے درمیان مستقبل کے بارے میں خفیہ سفارت کاری بھی جاری ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے متاثرین نے ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کی مخالفت کی ہے۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے گزشتہ ماہ ایک مقامی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیس روز کی جنگ بندی کا مقصد یہ دیکھنا ہے آیا ٹی ٹی پی سنجیدہ ہے اور اس عمل کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

دوسری جانب ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اعلان کیا تھا کہ دونوں فریقین نے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے تاکہ مکالمے کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG