عالمی ادارہٴ صحت کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چَن کا کہنا ہے کہ اُنھیں کوپن ہیگن میں آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق ہونے والے سمجھوتے پر مایوسی ہوئی ہے۔
لیکن وہ کہتی ہیں کہ کچھ اہم اقدامات بھی کیے گئے ہیں جِن کے نتیجے میں با الآخر ایک ایسا سمجھوتا طےپاجائے گا جو آب و ہوا کی تبدیلی کی رفتار کو سست کرنے کی استعداد رکھ سکے گا یا پھر اُس تبدیلی کو مکمل طور پر روک سکے گا۔
مارگریٹ چَن کہتی ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور صحت کے مامین تعلق بالکل واضح ہے۔ مثال دیتے ہوئے، اُن کا کہنا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے تحت لاکھوں افراد کو یا تو پانی کی زیادتی یا پھر پانی کی کمی سےنقصان ہوگا۔
چَن کہتی ہیں کہ بڑے پیمانے پر سیلاب آنے سے لوگوں کے ڈوبنے اور امراض کے باعث جانی نقصان ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کہ آلودہ سیلابی پانی مہلک امراض کا باعث بنتا ہے جِن میں اسہال اور ہیضہ جیسے امراض شامل ہیں، جب کہ دوسری طرف پانی کی کمی اور طویل عرصے تک جاری خشک سالی سے وہ فصلیں متاثر ہوں گی جو عام طور پر کاشت کی جاتی ہیں۔
مارگریٹ چَن کا کہنا ہے کہ پیش گوئی کے مطابق آئندہ 20سے 30سالوں کے دوران اگر صورتِ حال میں بگاڑ جاری رہا ہے تو زرعی پیداوار میں 50فی صد تک کمی واقع ہوگی۔ اگر اِس میں صداقت ہے تو کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ بھوک یا پھر ناقص غذا کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔
سائنس داں کہتے ہیں کہ کرہٴ ارض پر درجہٴ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوگا، جب کہ موسموں کی شدت میں اضافہ تیزی سے آئے گا۔
سائنس دانوں کے مطابق طوفان، سیلاب، خشک سالی یا پھر گرمی کی لہر اچانک آئے گی اور شدید حد تک رہے گی۔
عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث پیچیدہ امراض پیدا ہو رہے ہیں جِن سے لاکھوں مریض فوت ہو جاتے ہیں۔ ادارے نے خبر دی ہے کہ 35لاکھ سے زائد افراد ہر سال ناقص غذا کے باعث جنم لینے والی تکالیف کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ادارے کے مطابق اسہال سے تعلق رکھنے والے امراض سے سالانہ تقریباً 20لاکھ افراد کی اموات ہوتی ہیں جب کہ ملیریا سے مرنے والوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے۔ادارہٴ صحت کی سربراہ کا کہنا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے یہ مسائل اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔
چَن کہتی ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی عالمی معاملہ ہے جِس سے کوئی ملک بچ نہیں سکتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پس ماندہ ممالک جو پہلے ہی بڑے مسائل سے دوچار ہیں، وہاں آب و ہوا کی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل زیادہ اثر انداز ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں میں صحت کے کمزور نظاموں پر بے حد دباؤ آجائے گا اور اُنھیں مختلف امراض اور صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا مقابلہ کرنے میں بے حد دشواری لاحق رہے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ کوپن ہیگن عالمی اجلاس میں کچھ اہم اقدامات بھی کیے گئے جِن کے نتیجےمیں با الآخر ایک ایسا سمجھوتا طےپاجائے گا جس میں آب و ہوا کی تبدیلی کی رفتار کو سست کرنے کی استعداد ہوگی، یا پھر اُس تبدیلی کو مکمل طور پر روک سکے گا
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1