افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ستمبر سے جاری بین الافغان مذاکرات میں حالیہ دنوں میں پیش رفت دیکھنے میں آئی تھی جب فریقین مذاکرات کے ایجنڈے پر متفق ہو گئے تھے۔
تجزیہ کاروں نے اس اتفاق رائے کو افغان امن عمل کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا تھا۔
جن نکات پر اتفاق رائے ہوا ان میں شرعی قوانین سے متعلق اختلاف رائے کو ایک مشترکہ کمیٹی کے سپرد کرنا بھی شامل ہے جب کہ فریقین نے بات چیت کی رازداری کو برقرار رکھنے اور خلوص نیت کے ساتھ امن عمل آگے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کو بین الافغان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے 21 نکاتی ضابطہ اخلاق کی کاپی موصول ہوئی ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے اس پیش رفت کو سنگِ میل قرار دیتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغان عوام اب سیاسی روڈ میپ اور جنگ بندی کی طرف تیز پیش رفت کی توقع کر سکتے ہیں۔
ضابطۂ اخلاق کے اہم نکات کیا ہیں؟
- امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو طے پانے والے دوحہ معاہدے کی روشنی میں بات چیت ہو گی۔
- شرعی قوانین سے متعلق کسی اختلاف کی صورت میں ایک مشترکہ مذاکراتی ٹیم اس معاملے کا فیصلہ کرے گی۔
- ایجنڈے میں کوئی بھی ایسا نکتہ شامل نہیں ہو گا جو اسلام یا ملکی مفاد کے خلاف ہو گا۔
- جب ایک بار ایک معاملہ طے ہو جائے گا تو اس پر کوئی مزید بات چیت نہیں ہو گی اور یہ حتمی معاہدے کا حصہ بن جائے گا۔
- بات چیت کے دوران شائستگی اور احترام کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سنی جائے گی۔
- اہم معاملات پر جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا اور ایک دوسرے کے مؤقف کو صبر و تحمل سے سنا جائے گا۔
- فریقین کی جانب سے نامزد کردہ تین، تین افراد بات چیت کے نوٹس لیں گے۔
- میڈیا کو غیر ضروری بیانات دینے سے گریز کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو طے پانے والے دوحہ معاہدے پر افغان حکومت نے بعض تحفظات کا اظہار کیا تھا اور وہ اس معاہدے میں فریق بھی نہیں تھی۔
اس معاہدے میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا شیڈول اور طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا گیا تھا۔
معاہدے کے تحت طالبان نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین ،امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بین الافغان مذاکرات کے دوران ایک اہم نکتہ شرعی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے طالبان کا سخت موقف قرار دیا جا رہا تھا۔ طالبان کا یہ اصرار تھا کہ شرعی معاملات فقہ حنفیہ اور سنی مکتبۂ فکر کے تحت طے کرنے چاہئیں۔
تاہم افغان حکومت کا یہ مؤقف تھا کہ ملک میں شیعہ مسلمانوں سمیت دیگر مسالک بھی آباد ہیں۔ لہذٰا کسی مخصوص مکتبۂ فکر کی بنیاد پر شرعی قوانین نہیں بنائے جا سکتے۔
افغان اور مغربی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ضابطۂ اخلاق میں ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ بات چیت کے عمل کے دوران دوسرے فریق کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ماہ سے جاری بات چیت کے دوران طالبان کا رویہ ایسا تھا جیسا کہ افغان تنازع میں طالبان کی جیت اور افغان فریق کی ہار ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ بات چیت کے نوٹس لینے کا بھی طریقۂ کار وضع کیا گیا ہے جس کے تحت ہر فریق تین، تین اراکین کو نامزد کرے گا جو بات چیت کی روداد ریکار ڈ کریں گے اور ہر اجلاس کے اختتام کے بعد دونون فریق ا پنے اپنے مسودے کا ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کریں گے۔ بعدازاں مسودے کی منظوری دی جائے گی۔
دونون مذاکراتی ٹیموں نے میڈیا میں کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان جار ی نہ کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ میڈیا کو صرف متفقہ بیانات ہی جاری کیے جائیں گے۔
ضابطۂ اخلاق کے مطابق دستاویزات کی رازداری کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور دونون فریق رازداری کا افشا نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ میڈیا اور غیر متعلقہ افراد کو بات چیت کے مقام سے دور رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
بات چیت سے متعلق طے پانے والے ضابطۂ اخلاق میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ دونوں مذاکراتی ٹیموں کے ارکان کے علاوہ مذاکرات کے کمرے میں کوئی بھی بشمول میزبان ملک یا دیگر ممالک جنہوں نے مذاکراتی عمل میں سہولت فراہم کی ہے وہ موجود نہیں ہوں گے۔
بین الاافغان مذاکرات کا ایجنڈا طے کرنے کے حوالے سے بات چیت ایسے وقت جاری ہے جب افغانستان میں تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
مغربی ممالک کے عسکری اتحاد نیٹو نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان کے حملوں کی وجہ سے تشدد امن عمل کو کمزور کر رہا ہے اور اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
یادر ہے کہ منگل کو افغانستان کے غزنی صوبے میں ایک فوجی اڈاے پر ہونے والے کار بم حملے میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
صوبے بلخ میں طالبان نے مخالف مقامی فورس کے سات ارکان کو ہلاک کر دیا جب کہ قندھار میں پیر کو ہونے والے ایک کار بم حملے میں کم ازکم 35 افراد ہلاک ہو گئے۔ عالمی امدادی تنظیم 'سیو دی چلڈرن' نے اپنی ایک رپورٹ میں 2020 کو افغانستان کے بچوں کے لیے خوفناک سال قرار دیا ہے جس دوران تقریباً ایک ہزار نو سو بچے ہلاک یا زخمی ہوئے۔