افغانستان کے صوبہ بامیان میں منگل کے روز، یکے بعد دیگرے ہونے والے بم دھماکوں میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہو گئے ہیں۔
19 سال پہلے جب طالبان کو اقتدار سے الگ کرنے کیلئے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، تب سے شیعہ ہزارہ برادری کے اکثریتی اس صوبے میں یہ اب تک کا دہشت گردی کا سب سے زیادہ ہلاکت خیز واقعہ ہے۔
افغانستان کی وزاتِ داخلہ کے ترجمان، طارق آریان نے تصدیق کی ہے کہ بامیان کہلانے والے صوبائی دارالحکومت کی مرکزی منڈی میں دوپہر دیر گئے ہونے والے ان حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اکثریت عام شہریوں کی تھی جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
صوبہ بامیان کے گورنر فروغ الدین امیری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زخمی ہونے والے زیادہ تر افراد کی حالت نازک ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
طالبان کے ترجمان نے فوری طور پر اپنے گروپ کے اِس حملے میں ملوث ہونے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان، عام شہریوں کے خلاف اس حملے کی مذمت کرتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ دای قبول کرنے سے انکار کے بعد، ان شبہات میں اضافہ ہوا ہے کہ یہ حملے داعش نے کیے ہیں۔ یہ دہشت پسند گروپ عمومی طور پر دارالحکومت کابل میں آباد ہزارہ برادری کے خلاف بم دھماکوں اور دیگر متشدد حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔
بامیان میں منگل کے روز ہونے والا یہ حملہ، ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب اسی دن جنیوا میں افغانستان کو مالی امداد دینے والے ملکوں کا اجلاس منعقد ہوا تھا، جس میں جنگ سے تباہ حال اس ملک کیلئے مختلف ممالک نے مالی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔